وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ دورۂ جاپان نے پاکستان میں اربن ڈویلپمنٹ اور حکمرانی کے نظام پر نئے سوالات کھڑے کیے ہیں۔ جاپان کے ’’اربن ڈویلپمنٹ ماڈل‘‘ کے مشاہدے کے اس دورے میں سب سے بڑا سقم یہ تھا کہ وفد میں کوئی پیشہ ور شہری منصوبہ ساز، پالیسی تھنک ٹینک یا انسٹی ٹیوشنل ماہر شامل نہیں تھا۔ اس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ یہ دورہ زیادہ تر نمائشی اور سیاسی نوعیت کا تھا، جس کا مقصد پالیسی یا ادارہ جاتی سیکھنے کے بجائے صرف ظاہری دکھاوا تھا۔
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ ملاحظہ کریں
پاکستانی بیوروکریسی کے ’’اسٹڈی ٹورز‘‘ ایک مستقل روایت بن چکے ہیں۔ اربوں روپے عوامی ٹیکسوں سے خرچ ہوتے ہیں مگر عملی نتائج نہ ہونے کے برابر رہتے ہیں۔ جاپان جیسے ملک سے حقیقی طور پر سیکھنے کے لیے رسمی مشاہدہ کافی نہیں ہوتا بلکہ پاکستانی شہروں کے تناظر میں ان ماڈلز کو ڈھالنے کے لیے ادارہ جاتی منصوبہ بندی اور مستقل صلاحیت سازی ناگزیر ہے۔ مگر افسوس کہ ریاستی وسائل کا بڑا حصہ غیر ضروری دوروں، ٹی اے ڈی اے اور نمائشی وفود پر ضائع ہو جاتا ہے۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں
یہ رویہ دراصل ’’مغل طرز حکمرانی‘‘ کی عکاسی کرتا ہے جس میں نہ تو عوامی اعتماد کو اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی احتساب کو۔ منتخب نمائندے اور بیوروکریٹس ریاستی وسائل کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتے ہیں اور پالیسی سازی میں عوامی ترجیحات کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی فلاح اور دیرپا ترقیاتی پالیسیوں کے بجائے نمائشی اقدامات اور غیر شفاف فیصلے غالب آ جاتے ہیں۔
ریپبلک پالیسی ٹوئٹر پر فالو کریں
پاکستان میں اربن ڈویلپمنٹ کے بحران کی شدت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی، غیر منصوبہ بند بستیاں، ناکارہ انفراسٹرکچر، ناقص ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی مسائل روز بروز سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اربن پلاننگ ایک سائنسی ڈسپلن ہے جو یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور ماہرین سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ پاکستان میں اسے محض بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی لیے لاہور، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں کے مسائل مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔
ریپبلک پالیسی فیس بک پر فالو کریں
یہ بات اب عوام پر بھی واضح ہونی چاہیے کہ اگر یہ دورے صرف نمائشی تقریبات اور ذاتی فوائد تک محدود رہیں تو یہ عوامی اعتماد کے ساتھ ایک بڑا دھوکہ ہے۔ عوامی ٹیکسوں کے پیسے کو ان مقاصد پر خرچ کیا جا رہا ہے جن کا براہ راست تعلق عوامی فلاح سے نہیں۔ یہ ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کو بڑھا رہا ہے اور عوامی اعتماد کے فقدان کو مزید گہرا کرتا جا رہا ہے۔
ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک پر فالو کریں
ریپبلک پالیسی کے تناظر میں اصل حل یہی ہے کہ اربن ڈویلپمنٹ کو بطور پیشہ ورانہ اور سائنسی ڈسپلن تسلیم کیا جائے۔ ماہرین کو پالیسی سازی کا حصہ بنایا جائے، ادارہ جاتی صلاحیت سازی کے لیے طویل المدتی پروگرام تشکیل دیے جائیں اور بیوروکریسی کو عوامی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، پاکستان میں اربن ڈویلپمنٹ محض نمائشی دعووں اور شاہانہ اخراجات تک محدود رہے گی۔
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ ملاحظہ کریں
اگر موجودہ حکمرانی کا ماڈل جاری رہا تو شہروں کی اصل ضروریات جیسے صاف پانی، معیاری ٹرانسپورٹ، رہائش اور ماحولیاتی تحفظ مسلسل نظرانداز ہوتے رہیں گے۔ ترقی کا اصل راستہ صرف اسی وقت کھلے گا جب ریاستی ادارے خود کو عوامی جوابدہ سمجھیں اور پالیسی سازی میں علم، تحقیق اور پیشہ ورانہ مہارت کو شامل کیا جائے۔ نمائشی وفود اور غیر ضروری اخراجات ترقی کا متبادل نہیں بن سکتے۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں
آخرکار سوال یہ نہیں کہ پاکستان کے رہنما غیر ممالک سے ماڈلز دیکھ سکتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ ان ماڈلز کو پیشہ ورانہ مہارت اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ پاکستان میں ڈھالنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر یہ سیاسی اور انتظامی رویہ نہ بدلا تو شہروں کا بحران مزید بڑھتا رہے گا اور عوامی اعتماد مزید کمزور ہو گا۔ حقیقی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب احتساب، شفافیت اور پیشہ ورانہ علم کو قومی پالیسیوں کا مرکز بنایا جائے۔
ریپبلک پالیسی ٹوئٹر پر فالو کریں
✍️ مضمون نگار: ارشد محمود اعوان