سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ 600 ارب ڈالر کے اقتصادی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس میں توانائی، دفاع اور ٹیکنالوجی جیسے شعبے شامل ہیں۔ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کی، جہاں دونوں رہنماؤں نے اس معاہدے پر دستخط کیے، جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا تھا۔
امریکہ کے مطابق، سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری میں 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے بھی شامل ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا اسلحہ فروخت معاہدہ ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یہ سرمایہ کاری 1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جس سے امریکی معیشت میں نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔
سعودی عرب کا ویژن 2030 منصوبہ، جو ملک کی معیشت کو تیل سے آزاد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس میں بڑے منصوبے جیسے نیوم کا آغاز شامل ہے، جو ایک جدید شہر ہوگا۔ ایک سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم میں بتایا گیا کہ ایک ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری امریکی کمپنیوں میں کی جا رہی ہے۔
ٹرمپ نے سعودی ولی عہد اور دیگر اہم کاروباری شخصیات جیسے ایلن مسک (ٹیسلا)، لاری فنک (بلیک راک) اور اسٹیفن شوارز مین (بلیک اسٹون) کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پر سعودی ولی عہد کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ٹرمپ نے سعودی عرب کو امریکہ کا ایک اہم اتحادی قرار دیا۔
ٹرمپ کے دورے میں اسرائیل شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں، خاص طور پر غزہ میں جاری کشیدگی کے حوالے سے۔ اسرائیل کی قیادت کو تشویش ہے کہ امریکی پالیسی میں سعودی عرب کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان، ٹرمپ نے سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر سے زائد کے جدید ہتھیار فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ امریکہ اور ایران کے مذاکرات عمان میں جاری ہیں، لیکن ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر بات چیت ناکام ہوتی ہے تو وہ فوجی کارروائی کا سوچ سکتے ہیں۔
ٹرمپ کا خلیج کا دورہ امن و استحکام سے زیادہ اقتصادی تعلقات پر مرکوز ہے۔ ان کا مقصد سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعاون بڑھا کر دونوں ممالک کے مفادات کو فروغ دینا ہے، جس سے نہ صرف امریکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کے اہداف بھی حاصل ہوں گے۔