تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
ہمارے لوگ مقابلہ کرنے اور مقابلہ دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔مغل حکمران ہر طرح کی بازی کے شوقین تھے ۔ابتدائی مغل جان کی بازی لگانے کے شوقین تھے۔ وہ جان کی بازی لگا کر ہندوستان کے حکمران بنے۔ ان کے راج دلارے بٹیر بازی ،کبوتر بازی و دیگر بازی کے شوقین ثابت ہوئے ۔اس لیے ہرہر بازی گر نے انہیں جی بھر کر بیوقوف بنایا ۔بازی گر خود حکومت کرتے رہے اگرچہ سامنے کوئی نہ کوئی شہزادہ ہوتا لیکن پیچھے وہ کمبخت ہوتا جس کا مزے کرنے کا ارادہ ہوتا ۔ بر صغیر میں مسلم زوال کے اسباب پر بحث صدیوں سے جاری ہے اور آئندہ صدیوں میں بھی جاری رہنے کا قوی امکان ہے ۔سیفی صاحب ریسرچ کر رہے ہیں کہ جان کی بازی سے بٹیر بازی تک مسلم نوجوان کس کس مرحلے سے گزرا۔ محترمہ دیبو کائناتی بھی خواتین کی ان مردوں کے بارے میں پسندیدگی کے رجحانات پر انتہائی سنجیدہ تحقیق کر رہی ہیں جو کبھی جان کی بازی لگاتے تھے، پھر جان کی بازی لگانا تو کیا تلوار اٹھانے سے گھبراتے تھے ،تیتر ،کبوتر، بٹیر اور مرغ لڑاتے تھے ،پھر بھی مغل بچے کہلاتے تھے۔ مغل بچے اور کیا کیا کہلاتے تھے؟ یہ ریسرچ ابھی کی جا رہی ہے۔ ریسرچر کا نام انہی صفحات میں آئندہ آنے والے دنوں میں بتایا جائے گا اور پھر بار بار دہرایا جائے گا۔ کئی لوگ غم کا شکار رہے کہ یہ امت خرافات میں کھو گئی، خرافات میں ہم کھوئے رہے جبکہ ہندو ملازمتیں حاصل کرتے رہے۔ ملازمت اگرچہ ملازمت ہوتی ہے اور ہمارے شاہ صاحب کے بقول نوکری تو نوکری ہوتی ہے جو لفظ شروع ہی نوکر سے ہوتا ہے اس پر کیا فخر کرنا لیکن نوکر اور نوکر شاہی میں جو فرق ہے وہ وا پیاجانے یا را ہ پیا جانے ۔نوکر شاہی کو انگریزی میں بیوروکریسی کہا جاتا ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں اسے برا کریسی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ انڈین سول سروس کا آفیسر ہونے کا خواب قسمت والوں کا ہی پورا ہوتا تھا۔ اکبر الہ ابادی جیسا شاعر بر صغیر کی تاریخ میں دوسرا نہیں آیا ۔کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا انڈین سول سروس کا افسر تھا ، جہاں بیٹا ہوتا تھا وہاں باپ کو اپنا تعارف بیٹے کے حوالے سے کروانا پڑتا تھا۔ سول سروس میں وہ لوگ بھی رہے ہیں جنہیں لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے ۔ایک مسلم افسر تو ابھی تک بنگال کے قبائلیوں کی داستانوں کا حصہ ہیں۔ ان کے بارے میں لوک شاعری کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود اور کتنے ہی دیگر سول سرونٹ ہیں جنہوں نے بہت نیک نامی کمائی اگرچہ قدرت اللہ شہاب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاں انقلاب ہوتا ہے، وہاں قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے ۔آج کے دور میں بھی کتنے ہی افسر ہیں جن کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والے تھوڑے نہیں ۔اسباب زوال امت پرتحقیق کی جاتی رہی گی کہ کون ہیرو تھا ،کون ولن اور اگر یہ برا کریسی والی بیوروکریسی بھی نہ ہوتی تو ہمارا کیا حشر ہوتا۔ بہرحال آج تو ہم وائیوا ،وائس اور واہ واہ پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ زبانی امتحان کو وائیوا کہا جاتا ہے۔ وائس کا مطلب آواز بھی ہوتا ہے اور برائی بھی۔ واہ واہ کا مطلب اپنے منہ سے بتاتے ہوئے خاکسار کو شرم آرہی ہے۔ اردو ادب پڑھنے والے جانتے ہیں کہ کسی شاعر کا کلام آہ ہے تو کسی شاعر کا کلام واہ۔ تحریری امتحان پاس کرنا اپنی جگہ، پتلون کو لنگوٹی کر دینے والا فعل ہے لیکن جو آدمی تحریری امتحان میں فیل ہے وہ تو ویسے ہی دوڑ سے باہر ہے لیکن ایسے بھی کتنے لوگ ہیں جو تحریری امتحان میں اعلی نمبروں سے پاس ہوتے ہیں مگر انٹرویو میں فیل کر دیے جاتے ہیں ۔ کالم نگار سمجھتا ہے کہ ہمارا ایک ہی انٹرویو اہم ہوگا اور وہ انٹرویو روز جزا اللہ تعالی لیں گے۔ کالم نگار ڈاکٹر بھی ہے اور نوکر ِشاہی بھی ۔ اللہ تعالی کے کرم اور اردو اخبارات کے چند اعلی ظرف احباب کی بدولت کالم نگار بھی آپ کو وائس یعنی برائی، زبانی امتحان یعنی انٹرویو کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ کرے گا ۔آج کل یوٹیوب کی برکت سے وہ تمام افراد دانشور بنے ہوئے ہیں جو فارغ تھے۔کالم نگار کو جب پہلی دفعہ میڈیکل کالج میں زبانی امتحان دینے کا اتفاق ہوا تو ایک اعلی ظرف سید ڈاکٹر صاحب نے کالم نگار کو ترس کھاتے ہوئے فیل نہ کیا۔ انہیں کالم نگار کی نوجوانی او ر پردیسی ہونے پر ترس آیا کیونکہ چند لوگ ہوسٹل میں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لیتے ہیں ۔چند روز بعد نشتر میگزین میں نوجوان آتش نے لکھا :-“آج تک ایک پڑھے لکھے انسان نے دوسرے پڑھے لکھے انسان کو بے عزت کرنے کا جو سب سے مہذب اور محفوظ طریقہ ایجاد کیا ہے اس کا نام وائیوا ہے”۔ کالم نگار کو دلی خوشی ہوئی جب وہ سول سروس میں آیا اور ڈاکٹرز کے انٹرویوز لینے کا اتفاق ہوا ۔احساس کمتری کا علاج ہو گیا۔ بندہ پورے خلوص قلب سے یہ سمجھتا تھا کہ وہ صرف اپنے والدین کی دعاؤں اور اساتذہ کرام کی اعلی ظرفی کی وجہ سے ڈاکٹر بنا ہے۔ یقین ہو گیا کہ ایسے والدین بھی موجود ہیں جو ہمارے والدین سے کہیں زیادہ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو ایسے تمام بچوں کو پاس کر دیتے ہیں جو بتیس دانتوں میں زبان کی طرح رہتے ہیں، جو خود کو دنیاوی آلائشوں سے پاک رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ استاد کے آگے بولنا گناہ ہے، بڑوں کے آگے بولنا مشرقی روایت نہیں ہے۔ انٹرویو بھلے آدھے گھنٹے کا ہو، خاموش رہتے ہیں کیونکہ خاموشی میں ہی عافیت ہے۔زبانی امتحان کے چند دیگر واقعات آنے والے دنوں میں آپ کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے۔ آج فقط اتنی گزارش ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ انٹرویو قابلیت کا ٹیسٹ ہے ، انہیں یہ باور کروانے کی ضرورت ہے، تحریری امتحان میں کامیابی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر کوئی فرد تحریری امتحان میں کامیاب ہو چکا ہے تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسے مضمون پر عبور حاصل ہے۔ انٹرویو اعتماد اور اخلاق وکردار کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اختلاف کیسے کرنا ہے؟اتفاق کیسے کرنا ہے؟ اپنی بات بڑوں تو کیسے پہنچانی ہے؟ اگر کوئی اختلاف کر رہا ہے تو کیسے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے ؟مختلف خیالات والے افراد کو ساتھ لے کر کیسے چلنا ہے؟ انٹرویو ان صلاحیتوں سے بحث کرتا ہے جو تحریری امتحان میں کھل کر سامنے نہیں آتیں۔ بالکل بے فکر ہو کر انٹرویو دیجیے، پورے اعتماد کے ساتھ دیجئے ،دنیا میں کبھی بھی کوئی شخص انٹرویو میں اس وجہ سے فیل نہیں ہوا کہ اس کا علم کم تھا۔ اگر کسی نے تحریری امتحان پاس کیا ہوا ہے تو وہ اپنے گفتگو کے طریقے کی وجہ سے انٹر ویو میں فیل ہو سکتا ہے۔انٹرویو میں لباس کا، ظاہری جاذبیت کا خیال رکھیے۔ وہ لباس پہنیے جسے رسمی لباس کہا جاتا ہے۔ لہجہ وہ رکھیے جو ایک نوجوان کا کسی بزرگ سے بات کرتے ہوئے ہونا چاہیے۔ اگر کسی سوال کا جواب نہیں آتا تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ دیجیے کہ معذرت ،کوئی اور سوال پوچھ لیجیے۔ بڑے بڑے دعوی مت کیجئے، خود پسندی والی گفتگو مت کیجئے ۔پورے اعتماد اور پوری تہذیب کے ساتھ انٹرویو دیجیے۔ جہاں موقع ملے کوئی کوٹیشن ضرور سنائیے، کوئی شعر ضرور سنا ئیے۔اگر انٹرویو لینے والا انگریزی میں بات کر رہا ہے تو انگریزی میں بات کیجئے۔ اگر وہ اردو بولنے لگ گیا ہے تو اردو میں بات کیجئے۔ اگر آپ سے پہلے کسی کا انٹرویو 45 منٹ کا ہوا ہے اور آپ کا انٹرویو 25 منٹ کا ہوا ہے تو بالکل مت گھبرائیے۔ اگر آپ کا انٹرویو 70 منٹ کا ہوا ہے اور دوسروں کا انٹرویو دس منٹ کا ہوا ہے تو اس سے بھی مت گھبرائیے۔ انٹرویو لینے والے بہت تجربہ کار ہوتے ہیں ۔وہ جیسے مناسب سمجھتے ہیں ویسے انٹرویو لیتے ہیں۔ کوئی پیمانہ نہیں ہے کہ زیادہ دیر انٹرویو ہوگا تو بندہ پاس ہوگا ،تھوڑی دیر ہوگا تو بندہ فیل ہوگا ۔اللہ تعالی پر یقین کیجئے۔ چہرے پر مسکراہٹ رکھیے۔ آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کیجئے۔ لہجہ شائستہ رکھیے۔ اگر کوئی اختلافی مسئلہ چھیڑ لیا گیا ہے تو انٹرویو لینے والے کی رائے کا احترام کیجیے۔انٹرویو کی تیاری کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیے کہ اصل انٹرویو ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالی آپ کا حامی و ناصر ہو۔