نوید احمد
پاکستانی حکومت بظاہر اس بنیادی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ ایران پر حملے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد رکھنا کس قدر سنگین تضاد ہے۔ اس اقدام نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اخلاقی بیانیے کو بری طرح متزلزل کر دیا ہے۔ ایسی حالت میں جب پاکستان نے امریکی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ایران کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا ہے، تو پھر اسی حملے کے مرکزی معمار کی امن کے سفیر کے طور پر تعریف ایک کھلا تضاد ہے جو پاکستان کے سفارتی بیانیے کو بے وزن کر دیتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ جارحانہ کارروائیاں، خاص طور پر ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے، خطے میں کشیدگی کو نئی بلندیوں پر لے گئی ہیں۔ اس پس منظر میں ان کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے بلکہ پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ نامزدگی، جو شاید ابتدائی طور پر کسی سفارتی حکمتِ عملی کے تحت دی گئی ہو، اب ایک شرمناک غلطی بن چکی ہے جس کا واحد ازالہ فوری طور پر اس نامزدگی کی واپسی ہے۔
ایران کے ساتھ پاکستان کے تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی روابط ہمیشہ گہرے رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ایران کو ایک عالمی طاقت کی جانب سے کھلی جارحیت کا سامنا ہے، پاکستان کی خاموشی یا اس سے بھی بڑھ کر، اس جارحیت کے مرتکب شخص کی تعریف، ایک اخلاقی اور سفارتی غداری کے مترادف ہے۔ ایران نے جس تدبر اور صبر کے ساتھ حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے، اس کے برعکس ٹرمپ کی پالیسی ہمیشہ تصادم، دھمکی اور خودسری پر مبنی رہی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص امن انعام کا اہل سمجھا جائے؟
نوبل امن انعام ایک محض رسمی اعزاز نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک علامتی نشانی ہے جو اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ امن، رواداری اور مکالمہ ہی دنیا کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ ایسے شخص کو یہ اعزاز دینا یا اس کی حمایت کرنا جو یکطرفہ جارحیت، بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی، اور مسلمانوں کے خلاف متعصب پالیسیوں کے لیے جانا جاتا ہو، اس انعام کی روح کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کو ایسے بیانیے کا حصہ بننے سے فوری طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
https://www.youtube.com/watch?v=Gnm1Th5W8do&t=1111s&ab_channel=RepublicPolicy
یہ تضاد صرف بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی سنگین اثرات مرتب کرتا ہے۔ پاکستان کی عوام، جو خود دہشت گردی، ڈرون حملوں، اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے گزر چکی ہے، وہ ایسے شخص کی تعریف کو قبول نہیں کر سکتی جس نے بطور صدر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سیاستها اپنائیں، اور جو آج بھی مشرقِ وسطیٰ میں آگ بھڑکانے کا سبب بن رہا ہے۔ اگر حکومت واقعی خود کو امتِ مسلمہ کی آواز سمجھتی ہے، تو پھر اسے ٹرمپ جیسے کردار کی نامزدگی سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہوگا۔
پاکستان کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ سرکاری طور پر اور واضح الفاظ میں ٹرمپ کی نوبل امن انعام نامزدگی سے دستبرداری کا اعلان کرے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ایک اخلاقی موقف کے طور پر اہم ہوگا بلکہ اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئی معنویت اور وقار حاصل ہوگا۔ اس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتا، چاہے حالات کتنے ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوں۔
بنابراین یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ صرف واقعات سے نہیں، فیصلوں سے بنتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک فیصلہ کن موقع ہے کہ وہ اس سفارتی غلطی کو درست کرے اور ایک اصولی ریاست کے طور پر خود کو منوائے۔ اگر حکومت خاموشی اختیار کرتی ہے تو یہ خاموشی تاریخ میں ایک شرمناک سطر بن کر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گی۔
لہٰذا، پاکستان کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا وہ عالمی امن کے بیانیے کا حصہ بنے گا یا سیاسی مجبوریوں کی دلدل میں خود کو دفن کرے گا۔ فوری اقدام ناگزیر ہے: نامزدگی واپس لی جائے، قومی وقار بچایا جائے، اور امن کے ساتھ اپنی وابستگی دنیا پر واضح کی جائے۔