دنیا غموں اور المیوں سے بھری پڑی ہے۔ پھر، خوفناک دل دہلا دینے والے سانحات ہوتے ہیں۔ اے پی ایس کا سانحہ انتہائی اذیت ناک ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو عسکریت پسندوں نے آرمی پبلک سکول پر دھاوا بول کر 132 بچوں سمیت 150 کے قریب افراد کو شہید کر دیا۔ یہ ہولناک واقعہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے المناک واقعات میں سے ایک ہے۔ اس نے پوری قوم کو دکھ اور سوگ میں مبتلا کر دیا۔ متاثرین کے والدین نے ناقابل تصور ہولناکی اور مصائب کا بے پناہ درد برداشت کیا۔ وہ آج بھی خونریزی کی اس داستان کےانصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس واقعے نے پوری قوم اور حکومت کے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔
Read More: https://republicpolicy.com/16th-december-nation-will-never-forget-aps-martyrs/
اس کے نتیجے میں ملک میں موجود حکومتوں اور اداروں نے ملک میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے قومی ایکشن پلان کی تشکیل پر ایک قومی بحث کو جنم دیا۔ آخر کار، حکومت اور سیاسی جماعتیں ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ واقعہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فوجی آپریشن کے نتیجہ میں ہوا اور بعد ازاں حکومت اور عسکری اداروں کی مؤثر حکمت عملی سے دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا۔ اس طرح معصوم بچوں کی قربانی نےالجھن میں پڑی ریاستی مشینری کو ملک میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر مجبور کردیا۔
Read More: https://republicpolicy.com/india-must-abandon-its-policy-of-abetting-terrorism-pakistan/
پاکستان کو ایک پیچیدہ اور مبہم نظریاتی بیانیے کی وجہ سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ قوم کی بے پناہ قربانیوں کے بعد دہشت گردی کی لعنت پر قابو پایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود پیچیدہ مسائل اب بھی درپیش ہیں، اور دہشت گردی کا ممکنہ خطرہ ابھی مکمل طور سے ٹلا نہیں۔ 16 دسمبر قوم کو دل دہلا دینے والے سانحہ کی یاد دلاتا ہے جب معصوم طلباء کو ان کی تعلیمی درسگاہ میں بے رحمی سے شہید کیا گیا۔ یہ وہ دن تھا جب سنگدل دشمن نے اسکول کے نہتے بچوں کے خلاف بربریت اور وحشیانہ کارروائی کی۔ قوم اس دن کے دکھ کو بھول نہیں سکتی۔
قوم فرض کی ادائیگی میں شہید ہونے والے 132 بچوں سمیت 150 افراد کی قربانیوں کی مقروض ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ملک میں امن قوم کی غیر معمولی قربانیوں کی بدولت سے ہے۔ اس واقعے نے زندہ بچ جانے والے بچوں کو نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کیا ، جنہیں سخت لگن اور محنت کے ذریعے بحال کیا گیا۔ ملک کے بچے بھی نفسیاتی صدمے سے گزرے اور یہ واقعہ قوم کی یادداشت کا حصہ بن چکا ہے۔ تاہم پوری قوم بالخصوص بچوں نے حوصلے، ہمت اور صبر کے ساتھ اس صدمے کا مقابلہ کیا۔ یہ دن ملک کے اجتماعی ضمیر میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور لوگ پشاور کے بچوں کی عظیم قربانی کو کبھی نہیں بھولیں گے۔