بھارت کی آبی جارحیت: پاکستان کی سلامتی کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ

[post-views]
[post-views]

خالد مسعود خان

پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے ایک نیا خطرناک رخ اختیار کر لیا ہے۔ یہ خطرہ صرف فوجی محاذ تک محدود نہیں رہا بلکہ اب پاکستان کے آبی وسائل کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، جو کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دینا لازمی ہے، دریائے چناب کا پانی روک دیا ہے۔ اس اقدام نے پاکستان کے پانی کی فراہمی کو شدید متاثر کیا ہے اور زراعت کے لیے پانی کی کمی پیدا کر دی ہے۔

پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے حکام کے مطابق بھارت نے پاکستان کے حصے کے پانی کو اپنے تین بڑے آبی ذخائر میں بھرنا شروع کر دیا ہے جن کی مجموعی گنجائش تقریباً 1.2 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر بھارت اس پانی کو اچانک چھوڑ دیتا ہے تو پاکستان کے نچلے علاقوں میں خطرناک سیلاب آ سکتا ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت پانی روکنے کا عمل جاری رکھتا ہے تو پاکستان کو مزید چار سے پانچ دن پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید برآں، بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے سالال اور بگلیہار آبی منصوبوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس، خاص طور پر رائٹرز، کے مطابق ان منصوبوں پر ‘ریزروائر فلشنگ’ کی جا رہی ہے تاکہ زیادہ پانی محفوظ کیا جا سکے۔ اگر بھارت کے دوسرے ڈیمز نے بھی یہی عمل شروع کر دیا تو پاکستان کے پانی کے حصے کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال نہایت سنجیدہ ہے اور پاکستان کو مستقل نگرانی کی ضرورت ہے۔ دریائے چناب پنجاب کے وسیع زرعی علاقوں کو سیراب کرتا ہے اور بھارت کی یہ جارحیت پاکستان کی غذائی اور آبی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ اگر یہ اقدامات جاری رہے تو دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعہ مستقبل میں بڑے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔

مودی حکومت، جو اپنی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے نشے میں مست ہے، نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر کے حالات کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ یہ معاہدہ، جو کئی جنگوں اور تنازعات کے باوجود قائم رہا، اب غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گیا ہے۔ بھارت کا یہ قدم نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

پاکستان کے لیے پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ اس کی معیشت اور عوام کی زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ بھارت کی جانب سے پانی کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا یا معاہدے کی خلاف ورزی کرنا پاکستان کے لیے جنگی اقدام کے مترادف ہے۔ اسلام آباد نے واضح کر دیا ہے کہ پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اور اگر بھارت نے اشتعال انگیزی جاری رکھی تو پاکستان کو اپنے دفاع کے تمام آپشنز پر غور کرنا پڑے گا۔

پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جن میں خشک سالی، سیلاب اور غذائی عدم تحفظ شامل ہیں۔ ایسے میں پانی کے وسائل پر کسی بھی بیرونی حملے کا مطلب عوام کی زندگیوں کو براہ راست خطرے میں ڈالنا ہے۔ لہٰذا پاکستان کو اپنی آبی سلامتی کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔

سب سے پہلے، پاکستان کو بین الاقوامی عدالتوں میں بھارت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے فیصلے کو چیلنج کیا جا سکے۔ سفارتی محاذ پر بھی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی تاکہ بھارت کو اس معاہدے کی پاسداری پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ معاہدہ ماضی میں بھی کئی بحرانوں کے باوجود قائم رہا ہے اور اسے کسی ایک ملک کی من مانی پر ختم نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

پاکستان کو اپنے داخلی وسائل کو بھی منظم کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی ممکنہ آبی بحران سے نمٹا جا سکے۔ ہنگامی منصوبہ بندی، پانی کی بچت، اور موجودہ وسائل کا مؤثر انتظام اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عوامی شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگ پانی کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کا ضیاع روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

مودی حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کی جارحانہ پالیسیوں سے وقتی سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن طویل المدتی نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں، اور پانی پر تنازعہ خطے میں بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ بھارت کو بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنی ہوگی اور سندھ طاس معاہدے کو برقرار رکھنا ہوگا۔

آخر میں، پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے بلکہ مستقبل میں بھی اپنی آبی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرے۔ سندھ طاس معاہدے کا دفاع کرنا اور بھارت کو اس کے وعدوں کا پابند بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ خطے میں امن اور استحکام قائم رہ سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos