طاہر مقصود
پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک بار پھر اہم موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ پیغام چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد دیا۔ اگرچہ گوہر نے مذاکرات کی تفصیلات پر خاموشی اختیار کی، لیکن انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں مفاہمت کو محاذ آرائی پر ترجیح دینے کا عندیہ دیا۔ اگر یہ مذاکرات سنجیدگی اور تسلسل سے جاری رہتے ہیں، تو یہ تحریک انصاف کی بعد از انتخابات حکمت عملی میں ایک مثبت تبدیلی ثابت ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف نے گزشتہ برس مختلف اوقات میں مذاکرات کا آغاز کیا لیکن پھر اچانک دستبرداری اختیار کی، جس سے جماعت کی سنجیدگی پر سوالات اٹھے۔ مبصرین نے بارہا خبردار کیا ہے کہ پی ٹی آئی اگر مستقل مزاجی اور واضح سیاسی حکمت عملی اختیار نہیں کرتی تو وہ اپنی اہمیت کھو سکتی ہے، خاص طور پر ایک ایسے سیاسی ماحول میں جو اب قدرے مستحکم ہو چکا ہے۔
حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران بھی تحریک انصاف کے بیانیے میں تضاد سامنے آیا۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان نے نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان مبینہ ملی بھگت کا دعویٰ کیا، جسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ پارٹی کے اندر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان کے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بعد میں جاری بیان میں بھارتی جارحیت کی مذمت کی گئی، لیکن ابتدائی بیانیے سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
ایسے وقت میں جب معاشی اشارے بہتر ہو رہے ہیں، خارجہ پالیسی میں کشمیر پر توجہ دی جا رہی ہے اور عسکری سطح پر استحکام نظر آ رہا ہے، سیاسی کشیدگی کے لیے جگہ کم ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کی پرانی حکمت عملی، جس میں احتجاج، بیرونی دباؤ اور قانونی جنگوں کے ذریعے نظام کو ہلانے کی کوشش کی گئی، اب موثر ثابت نہیں ہو رہی۔ جماعت کی موجودہ ترجیحات، جیسے کہ قید رہنماؤں کے لیے ریلیف اور سیاسی جگہ کی بحالی، زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ ظاہر کرتی ہیں۔
تاہم صرف حکمت عملی میں تبدیلی کافی نہیں۔ تحریک انصاف کو داخلی نظم و ضبط قائم کرنا ہوگا اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کرنا ہوگا، خاص طور پر قومی بحرانوں کے دوران۔ اگر بیرون ملک موجود پارٹی کے حامیوں کو جماعت کی نمائندگی کا حق دیا جاتا رہا تو حاصل شدہ سیاسی فوائد ضائع ہو سکتے ہیں۔
مذاکرات کا موقع موجود ہے۔ اگر پی ٹی آئی سیاسی عمل میں اپنی جگہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے، 2028 کے شفاف انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے، اور عمران خان کے لیے قانونی ریلیف کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے، تو یہی وقت ہے۔ لیکن مذاکرات میں دوغلا پن یا غیر سنجیدگی کا رویہ کامیابی کو ناممکن بنا سکتا ہے۔
مذاکرات صبر، تسلسل اور قربانی مانگتے ہیں، جو پی ٹی آئی کی تاریخ میں کم نظر آئے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات سیاسی بلوغت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی مفاہمت کی راہ پر قدم رکھے، تو نہ صرف اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے بلکہ پاکستان کے سیاسی مستقبل میں مؤثر کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ یہ ایک نادر موقع ہے جو بار بار نہیں آئے گا۔