طارق محمود اعوان
پاکستان نے حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے دوران ایران کی کھل کر حمایت کر کے ایک اہم اور دور رس خارجہ پالیسی کا عندیہ دیا ہے۔ ایران کے جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان کا ایران کے حق میں مؤقف اختیار کرنا محض سفارتی اظہارِ یکجہتی نہیں بلکہ ایک دانشمندانہ اور حقیقت پسندانہ پالیسی فیصلہ ہے جس کے مقامی و عالمی سطح پر متعدد فوائد سامنے آ سکتے ہیں۔
پاکستان نے اقوامِ متحدہ جیسے عالمی فورمز پر ایران کی حمایت کا اعلان کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں محض تماشائی بننے کے بجائے ایک فعال اور اصولی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی محتاط توازن پر مبنی رہی، جس میں ایران اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان سفارتی توازن کو مقدم رکھا گیا۔ تاہم حالیہ مؤقف اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اب اپنی قومی خودمختاری کے تحت فیصلے کر رہا ہے اور بین الاقوامی دباؤ سے بالاتر ہو کر اپنے مفادات کی ترجیحات طے کر رہا ہے۔
ایران کی حمایت کے اس فیصلے کا ایک اہم پہلو بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تزویراتی تعلقات کو چیلنج کرنا بھی ہے۔ اسرائیل کئی برسوں سے بھارت کو جدید اسلحہ، نگرانی کے نظام اور دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے، جو پاکستان کی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ پاکستان کی ایران کی حمایت نے نہ صرف بھارت کو ایک مشکل سفارتی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے بلکہ ایران میں بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
بھارت نے اس کشیدگی میں غیر جانبداری کا تاثر دیا ہے، لیکن اس کی اسرائیل سے قربت ایران کو بے چین کر سکتی ہے۔ پاکستان کی بروقت حمایت سے ایران میں بھارت کی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کا امکان پیدا ہوا ہے، اور پاکستان کو ایران میں معاشی و سفارتی مواقع کے دروازے کھولنے کا موقع ملا ہے، جو مستقبل میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کر سکتا ہے۔
پاکستان کی اس حمایت نے مسلم دنیا میں بھی اس کی ساکھ میں بہتری پیدا کی ہے۔ عرب ریاستیں، خصوصاً خلیجی ممالک، حالیہ برسوں میں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کر رہی ہیں، جبکہ پاکستان کا مؤقف ان ریاستوں کے برعکس ایک اصولی مؤقف کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سے پاکستان نے ایک غیر جانبدار اور خودمختار مسلم ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کو بحال کیا ہے، جو امت مسلمہ کے اہم مسائل پر اصولی موقف رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے ایران کی حمایت کرتے ہوئے مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ، کے ساتھ اپنے تعلقات کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی لیکن امریکہ یا مغربی اتحادیوں کے خلاف کوئی تصادم آمیز بیان نہیں دیا۔ یہ توازن پاکستان کی بالغ نظر سفارت کاری کا مظہر ہے جس سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختار ہے لیکن کسی کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
علاقائی سطح پر ایران سے تعلقات کی بہتری سے پاکستان کو سرحدی سلامتی کے تناظر میں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاک-ایران سرحد پر منشیات کی اسمگلنگ، عسکریت پسندی اور غیر قانونی نقل و حمل کے مسائل درپیش رہے ہیں۔ اگر دوطرفہ تعاون مضبوط ہو، تو مشترکہ سرحدی نگرانی، ذہانت اشتراک گذاری اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ پاکستان کے داخلی سیاسی منظرنامے پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک عرصے سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی اور عدمِ تحفظ کا سامنا رہا ہے۔ اس خودمختار فیصلے نے عوامی سطح پر ایک نیا اعتماد پیدا کیا ہے کہ ملک عالمی معاملات میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس سے داخلی استحکام، قومی خودی اور ریاستی اداروں پر اعتماد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر ایران کی حمایت کے ذریعے پاکستان نے اپنی سفارتی حدود کو وسعت دی ہے۔ ایران، اگرچہ پابندیوں کا شکار ہے، مگر اس کے چین، روس، ترکی اور بعض لاطینی امریکی ممالک سے اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی کھلی حمایت ان ریاستوں کے ساتھ مشترکہ مفادات اور تعاون کے نئے امکانات پیدا کر سکتی ہے۔
پاکستان کا ایران کے ساتھ کھلم کھلا کھڑا ہونا ایک دور رس اور خودمختار خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے پاکستان نے نہ صرف بھارت-اسرائیل اسٹریٹجک اتحاد کو چیلنج کیا، بلکہ مسلم دنیا میں اپنی اخلاقی قیادت اور مغربی دنیا کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات کو بھی مستحکم کیا ہے۔ یہ رویہ اس امر کا غماز ہے کہ پاکستان اب بین الاقوامی نظام میں ایک خودمختار، متوازن اور اصولی ریاست کے طور پر اپنی شناخت منوانے کے لیے پرعزم ہے۔ اگر یہی سفارتی حکمت عملی تسلسل کے ساتھ جاری رہی، تو پاکستان ایک مؤثر اور معتبر عالمی کردار کا حامل ملک بن سکتا ہے۔