ظفر اقبال
پنجاب کے وزیر خزانہ شجاع الرحمان نے 5.33 کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں 740 ارب روپے کا اضافی سرپلس ظاہر کیا گیا ہے، جو کہ وفاق اور آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے سے 110.4 ارب روپے زیادہ ہے۔ یہ اضافہ شاید وفاق کی روایتی طور پر مبالغہ آمیز محصولات کو مدنظر رکھنے یا عالمی مالیاتی اداروں کو اعتماد دلانے کی کوشش ہے، خاص طور پر جب سندھ نے 38 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔
پنجاب کو 4.062 کھرب روپے کی وفاقی منتقلی متوقع ہے، جو اس کی مالی منصوبہ بندی کی بنیاد ہے، مگر اس پر انحصار خطرناک ہے کیونکہ ماضی میں وفاقی محصولات کے تخمینے حد سے زیادہ خوش فہمی پر مبنی ثابت ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی، صوبائی محصولات میں جاری مالی سال کے دوران 50.5 ارب روپے کی کمی (یعنی 11 فیصد) صوبائی ریونیو محکمے کی آئندہ ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے غیر وفاقی آمدن کا تخمینہ کم ہو کر 798.6 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جو رواں سال کے ترمیم شدہ اندازے سے 55 ارب روپے کم ہے۔
زرعی آمدن پر نیا ٹیکس، جو یکم جولائی 2025 سے لاگو ہوگا، صرف 10.5 ارب روپے آمدن کی توقع رکھتا ہے، جو کہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ اس سے سیاسی مزاحمت کا عندیہ بھی ملتا ہے، خاص طور پر زمین دار اراکین اسمبلی کی طرف سے۔ سندھ نے اسی مد میں 388 ارب روپے کا ہدف رکھا ہے، جو پنجاب کے ہدف کو غیر سنجیدہ ظاہر کرتا ہے۔
Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
شہری غیر منقولہ جائیداد پر محصولات میں گزشتہ سال 8 ارب روپے کی کمی ہوئی، پھر بھی اگلے سال کے لیے 32.54 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے، جو کہ زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔
سروسز پر سیلز ٹیکس میں 22 فیصد اضافہ، یعنی 273.7 ارب سے بڑھا کر 333.5 ارب روپے، مہنگائی میں مزید اضافہ کرے گا اور غریب طبقے پر بوجھ ڈالے گا۔
ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے باعث 57 ارب روپے کا مزید خرچ ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ پنشنرز کو صرف 22 ارب روپے اضافی دیے گئے ہیں، جو اخراجاتی ترجیحات میں عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے۔
پنجاب کی ترقیاتی بجٹ میں 47 فیصد اضافہ بظاہر حوصلہ افزا ہے، مگر جب این ایف سی فارمولے کے تحت متوقع حصہ یعنی 1484 ارب روپے سے موازنہ کیا جائے، تو موجودہ 1240 ارب روپے کی رقم 16.5 فیصد کم ہے، جس سے ترقیاتی بجٹ کی حقیقی حیثیت پر سوال اٹھتا ہے۔
آخرکار، یہ بجٹ مالی استحکام کا تاثر تو دیتا ہے، مگر اس میں غیر حقیقی محصولات، کمزور اصلاحات اور سیاسی سمجھوتے چھپے ہوئے ہیں۔ جب تک پنجاب حکومت داخلی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور شفاف ٹیکس نظام پر سنجیدہ اصلاحات نہیں لاتی، بجٹ اہداف کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔ ماضی کے تجربات کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔