ٹرمپ اور فیلڈ مارشل منیر کی ملاقات؛ پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن سفارتی موقع

[post-views]
[post-views]

طاہر مقصود

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان حالیہ ملاقات محض رسمی نہیں بلکہ ایک اہم سفارتی موقع ہے، جو عالمی اور علاقائی تناظر میں پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کو نئی سمت دے سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ، کشمیر کی مسلسل غیر یقینی صورتحال، اور غزہ میں اسرائیلی مظالم جیسے حساس موضوعات کے پس منظر میں یہ ملاقات غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

اس ملاقات کی ٹائمنگ خود اپنے اندر کئی علامتیں رکھتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی نے علاقائی امن کو داؤ پر لگا دیا ہے، اور امریکہ مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے، پاکستان ایک نازک سفارتی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ، مذہبی، جغرافیائی اور اقتصادی طور پر اہم شراکت دار ہے، جبکہ امریکہ اور اس کا اتحادی اسرائیل عالمی طاقت کے ڈھانچے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس پیچیدہ صورتحال میں فیلڈ مارشل منیر کی ٹرمپ سے ملاقات پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک مؤثر قدم بن سکتی ہے۔

اس ملاقات کا ایک اور پہلو پاکستان کے دفاعی اور أمن مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جو قربانیاں دی ہیں اور جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔ داعش خراسان جیسے خطرات کے خلاف پاکستان کی کارروائیاں اور امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس شراکت داری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان صرف ایک دفاعی ریاست نہیں بلکہ علاقائی استحکام کا ضامن بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ، اس ملاقات میں ایسے امور بھی اجاگر کیے جا سکتے ہیں جو پاکستانی عوام کے جذبات سے جڑے ہوئے ہیں، جیسے کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کا مطالبہ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی، اور غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی برادری کو متحرک کرنا۔ فیلڈ مارشل منیر کی یہ سفارتی موجودگی نہ صرف پاکستان کے ریاستی موقف کی نمائندگی کرے گی بلکہ مسلم دنیا کے اجتماعی ضمیر کی بھی عکاسی کرے گی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اب محض ردِعمل دینے والی ریاست کے بجائے، عالمی سطح پر فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ کو بلکہ جنوبی ایشیا کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے جنگ بندی اور ثالثی کی تجاویز عالمی سطح پر ایک سنجیدہ اور معتدل آواز کے طور پر ابھر سکتی ہیں۔

آخر میں، یہ ملاقات پاکستان کو ایک ایسے سفارتی موڑ پر لے آئی ہے جہاں وہ صرف عالمی قوتوں کے اثرات قبول کرنے کے بجائے، خود کو ایک فیصلہ ساز ریاست کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔ اگر اس موقع کو دانشمندی، توازن اور حکمت عملی کے ساتھ بروئے کار لایا جائے تو یہ نہ صرف پاکستان کے قومی مفادات کو تقویت دے گا بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ اور اثر و رسوخ میں بھی نمایاں اضافہ کرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos