مبشر ندیم
اسرائیل اور ایران کے درمیان بارہ روزہ کشیدگی کے دوران چین نے فوری طور پر خود کو ایک ثالث اور ذمہ دار عالمی قوت کے طور پر پیش کیا۔ ۱۳ جون کو ایران پر اسرائیل کے اچانک اور غیر اعلانیہ حملے کے اگلے ہی دن، بیجنگ نے دونوں فریقین سے رابطہ کیا اور تنازع کے پرامن حل کی خواہش کا اظہار کیا، جبکہ چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
چینی صدر شی جن پنگ نے بھی کشیدگی کے خاتمے اور فوری جنگ بندی کی اپیل کی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین نے روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ صورتحال اس وقت سنگین ہو گئی جب ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی، جہاں سے دنیا کا ۲۰ فیصد تیل گزرتا ہے۔ چین، جو مشرقِ وسطیٰ سے اپنی آدھی سے زائد تیل کی ضروریات پوری کرتا ہے، فوری طور پر متحرک ہوا۔
اگرچہ چین نے فعال سفارتی کردار ادا کرنے کی کوشش کی، ماہرین کے مطابق اس کا اثر محدود رہا۔ چین کی عدم مداخلت کی پالیسی اور علاقائی فوجی اثر و رسوخ کی کمی اس کی ثالثی کی کوششوں کو محدود کرتی ہے۔ تجزیہ کار چینگ کے مطابق: “چین ایک ذمہ دار عالمی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے، مگر اس کا حقیقی سفارتی اثر کمزور ہے۔”
چین کی مشرق وسطیٰ میں معاشی سرمایہ کاری بہت وسیع ہے، جس میں ایران کے ساتھ تیل کے معاہدے، اسرائیل میں ٹیکنالوجی سرمایہ کاری، اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے شامل ہیں۔ ایران کے ساتھ چین کا ۲۵ سالہ تزویراتی معاہدہ اور فوجی مشقیں، اسرائیل کے لیے چین کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتی ہیں۔
اگرچہ امریکہ نے بھی وقتی طور پر چین کے اثر کو تسلیم کیا — امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے چین سے درخواست کی کہ وہ ایران کو آبنائے ہرمز بند کرنے سے روکے — لیکن یہ سفارتی لمحہ عارضی ثابت ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چین ایک سفارتی تضاد کا شکار ہے۔ وہ عالمی ثالث بننے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن اس کے قریبی سیاسی تعلقات، خاص طور پر ایران جیسے فریقوں سے، اس کی غیر جانبداری اور ثالثی کی ساکھ کو کمزور کرتے ہیں۔
2023 میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی اور 2024 میں حماس و فتح کے درمیان معاہدہ چین کی چند کامیابیاں ضرور ہیں، لیکن ان میں بھی عمان اور عراق جیسے شراکت داروں کا کلیدی کردار رہا۔
مستقبل قریب میں، چین اپنی معاشی حکمت عملی پر توجہ برقرار رکھے گا جبکہ سی کیورٹی کے لیے امریکہ پر انحصار جاری رہے گا۔ تاہم، امریکہ کی عسکری کارروائیوں کے مقابلے میں چین خود کو زیادہ پرامن اور ذمہ دار عالمی طاقت کے طور پر پیش کرتا رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا چین واقعی مشرق وسطیٰ میں سفارتی قیادت سنبھال سکتا ہے؟ فی الحال، چین نے زبان سے کردار کا دعویٰ کیا ہے — مگر عملی طور پر اس کا اثر اب بھی محدود ہے۔
مشرق وسطیٰ میں چین کی حالیہ سفارتی سرگرمیاں ایک اہم علامت ہیں کہ بیجنگ عالمی سیاست میں اپنی حیثیت کو بڑھانا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف معاشی مفادات یا اصولی بیانات کافی نہیں۔ خطے میں مؤثر سفارتی کردار ادا کرنے کے لیے چین کو نہ صرف اپنی غیرجانبداری کو مضبوط کرنا ہوگا بلکہ علاقائی اعتماد بھی حاصل کرنا ہوگا، جو فی الوقت اسرائیل جیسے ممالک کی نظروں میں اسے حاصل نہیں۔ ایران سے گہرے تزویراتی تعلقات نے اگرچہ چین کو تہران کے قریب کر دیا ہے، مگر اسی وجہ سے وہ ایک حقیقی ثالث کے طور پر قبول کیے جانے سے قاصر رہا ہے۔ اس کے برعکس، امریکہ جو کہ اکثر متنازع پالیسیوں کا حامل رہا ہے، آج بھی خطے میں سی کیورٹی کا بڑا ضامن تصور کیا جاتا ہے۔
چین کے لیے یہ لمحہ امتحان بھی ہے اور موقع بھی۔ اگر وہ مشرق وسطیٰ میں امن، توازن اور کثیر الفریقی تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے تو اسے محض معاشی شراکت دار بننے کے بجائے، اعتماد پر مبنی سیاسی اور انسانی سطح کی سفارت کاری اپنانی ہوگی۔ بصورت دیگر، چین کا کردار صرف بیانات، اجلاسوں اور محدود ثالثی کی حد تک ہی محدود رہے گا، جبکہ حقیقی فیصلے واشنگٹن اور اس کے اتحادی ہی کرتے رہیں گے۔ دنیا کو ایک نیا اور متوازن ثالث درکار ہے، لیکن اس کے لیے چین کو محض سرمایہ دار نہیں، بلکہ ذمہ دار اور عملی ثالث ثابت ہونا ہوگا۔