کیا،کب،کیوں ،کیسے، کب تک؟

[post-views]
[post-views]

تحریر:-ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


اس شہر میں آئے تو وہ کیا تھے؟ کیوں آئے تھے؟ کب آئے تھے ؟کیسے آئے تھے اور کب تک کے لیے آئے تھے؟نہ ہی یہ شہر ایسٹ میں تھا نہ ہی وہ کسی کمپنی میں تھے اور نہ ہی کوئی ان کی کمپنی میں تھا ۔اس کے باوجود شہر کو سونے کی چڑیا کہتے تھے تو کیوں کہتے تھے؟ اس سوال کا جواب وہ خود ہی جانتے ہیں اور وہ فقط اس سوال کا جواب ہی نہیں اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں ۔کسی وقت لگتا تھا کہ وہ یہ تمام باتیں بھول چکے ہیں۔ بھول تو خیر وہ بہت کچھ چکے تھے لیکن انہیں اتنا یاد تھا کہ اب وہ خود ہی یہ شہر تھے ،شہر ان سے تھا، وہ شہر سے تھے ، ہر پہر سے تھے اور ہر پہر کے لیے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی وجہ سے چند لوگ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں نہ صبح ہوتی ہے اور نہ شام ہوتی ہے، دوپہر ہوتی ہے اور زندگی تمام ہوتی ہے ۔لکھنے والے نے لکھا کہ اسلام کا ایک دائرہ ہے جس میں پہلے لوگ داخل ہوتے تھے، اب خارج ہوتے ہیں۔ اس شہر کا بھی ایک دائرہ تھا۔وہ اس دائرے میں کب، کیسے اورکیوں کر داخل ہوئے؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ اب اس دائرے میں کب تک رہیں گے؟ کسی اور کو اس دائرے میں داخل ہونے دیں گے یا نہیں ،جو لوگ پہلے ہی اس دائرے کے اندر ہیں،ان کو کب خارج کریں گے ؟ یہ تمام سوال تشنہ جواب تھے اور بہت سو ں کا خواب تھے ۔وہ کسی کو جواب نہ دیتے تھے۔ ان کی دانست میں جواب نہ دینا ہی بہترین جواب تھا۔اپنے بارے میں فرماتے تھے :- ” جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے”۔ بجا فرماتے تھے۔فقط ان کی یہ بات ہی بجا نہیں تھی، ہر بات بجا تھی ۔شہر کا ہر” اللہ رکھا” ان سے مکمل اتفاق کرتا تھا۔ وہ کسی کو پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے تھے پھر بھی بہت سے لوگ ان کے پٹھے بن چکے تھے۔ ان کا ستارہ چمک رہا تھا ،دمک رہا تھا۔وہ خود کو گوگل سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور آثار سے یہی لگتا ہے کہ ہمیشہ سمجھتے رہیں گے ۔لوگ ان کو کیا سمجھتے ہیں ؟یہ لوگ ہی بہتر جانتے ہوں گے ۔ وہ لوگوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتے اور ان کے معاملات میں تو کوئی بھی دخل نہیں دے سکتا۔ پٹھانے خان پسندیدہ گلوکار اور پسندیدہ گانا :-“میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی تو ں” تھا ۔ عشق کون تھا؟ یار کون تھا؟ یہ بات فقط خود جانتے تھے، وہ کسی کا عشق تھے یا نہیں ،وہ کسی کے یار تھے یا نہیں یہ بات پورا جگ جانتا تھا”۔ شاعری کو پسند کرتے تھے اور ہر شاعرہ کو بھی لیکن فقط ایک شرط پر کہ وہ ان کے شہر میں ایک دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔جو بھی ان کے شہر میں ایک دن سے زیادہ ٹھہرتا، اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ستم ظریفی یہ تھی کہ جو ان کے شہر میں ایک دن سے زیادہ ٹھہرتا ،وہ ان کو بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔وجہ کیا تھی؟ آج تک کوئی جان نہیں پایا تھا اور اگر کوئی جان بھی پایا تھا تو بتا نہیں پایا تھا۔ بظاہر ہر طرح کے لین دین کے خلاف تھے ،سوائے انٹرویو کے لین دین کے۔ انٹرویو کے لین دین کا عارضہ بچپن سے لاحق تھا اور اب وہ پچپن کے تھے اور ان کے عارضے میں اضافہ ہو چکا تھا ۔لوگ ان کے شوق کی بابت فقط اتنا کہتے تھے :”یہ عالم شوق کا کسی سے بھی دیکھا نہ جائے ۔۔۔ہائے ہائے” ۔چھوٹے تھے تب بھی انٹرویو بڑا دیتے تھے اور بار بار دیتے تھے۔ انٹرویو لیتے بھی تھے ۔جی ہاں ،کمپنی کے مالک بن جاتے تھے، اپنے ملازمین رکھنے کے لئیےتفصیلی انٹرویو کرتے تھے۔سب کو مسترد کر دیتے تھے ۔ بچپن کی عادت نےپچپن سال کی عمر میں بھی جان نہ چھوڑی۔ جب بھی انٹرویو لیتے تھے، ایک ہی گلہ کرتے تھے:- ” امیدواروں نے بڑا مایوس کیا “۔ یہی شکوہ امید وار بھی کرتے تھےاور ان کے سینئر بھی ۔ ہر معاملے میں انٹرویو دیتے تھے ۔ہر چینل،ہر اخبار کو ،ہر انسان کو دیتے تھے۔ سنتے تھے کہ کسی کے پاس بولنے والا طوطا ہے تو ضد کرنے لگ جاتے تھے کہ طوطا ان کا انٹرویو کرے۔ اگر طوطا انٹرویو کرتا تھا تو خوش ہوتے تھے اور اگر کوئی طوطا انٹرویو لینے سے انکاری ہوتا تو فوراََ اسے “کوا “ڈکلیئر کر دیتے ۔ اے آئی کو انٹرویو دیتے تھے ۔ خود کو ارسطو زمانہ ، سقراط دوراں اور افلاطون سمجھتے تھے۔ لوگ ان کو مبتلا جنون سمجھتے تھے اور ہمارے دوست خود کو ماہر فنون سمجھتے تھے۔ انٹرویو لیتے وقت خود کو ماہر امراض انسانیات ، ماہر امراض سماجیات ، ماہرامراض رواجیات وغیرہ وغیرہ سمجھتے تھے۔ اپنا انٹرویو کرواتے بھی تھے ، چھپواتے بھی تھے اور دنیا بھر کو پڑھاتے بھی تھے ۔ہر میگزین پڑھتے تھے۔ ان کی تحریر پڑ ھ کر دوسروں کو مایوسی ہوتی تھی اور دوسروں کی تحریر پڑھ کر ان کو مایوسی ہوتی تھی ۔واقفان حال کہتے تھے ان کی زندگی کنجوسی ہی کنجوسی تھی ۔کنجوسی ،مایوسی اور مہمان خصوصی ان کی زندگی کے تین ستون تھے۔بظاہر انٹرویو کے لین دین کے علاوہ کسی بھی طرح کے لین دین کو پسند نہیں کرتے تھےلیکن اگر کوئی انہیں مہمان خصوصی نہیں بنا تا تھا تو ناراض ہوتے تھے ،بلاتا تھا اور شیلڈ نہیں دیتا تھا تو سخت ناراض ہوتے تھے۔ کنجوسی کرتے تھے ۔ مایوسی پھیلاتے تھے۔مہمان خصوصی بنتے تھے۔ زندگی کے مزے اٹھارہے تھے ،دشمنوں کو تڑ پا رہے تھے، دوستوں کو ہنسا رہے تھے ، انٹرویو دیئے جا رہے تھے،ذرا بھی نہ شرما رہے تھے۔ مایوسی، کنجوسی اور مہمان خصوصی ،یہ تین لفظ ان کی زندگی کا حاصل تھے۔ انہیں مہمان خصوصی بننے کا بھی شدید شوق تھا ۔ہر ایسی تقریب میں پہنچ جاتے تھے جہاں مہمان خصوصی بننے کا معمولی سا بھی چانس ہوتا تھا۔ انہوں نے عمر بھر اگر کوئی ایک کام مستقل مزاجی سے کیا تھا تو وہ کنجوسی تھا۔ کنجوسی کرنے کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ سمجھتے تھے کہ ان کے لیے کنجوسی ہی زندگی ہے۔ مایوسی کا چال چلن کنجوسی کی طرح ہی پھیلتا جا رہا تھا۔اگرچہ خود کو کنجوس نہیں، پرخلوص سمجھتے تھے ۔خود ان کا یہ حال ہو گیا تھا کہ ہر چال سے اب چلن ہی ٹپکنے لگا تھا۔چلن اور جلن میں کیا مماثلت ہے ،یہ تو اہل علم ہی بتا سکتے ہیں۔ہم فقط اتنا جانتے ہیں کہ انسان کا چلن ایسا ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اس سے جلن نہ ہو بلکہ اس پر رشک آئے ۔ لوگوں کے پاس کچھ بھی ہو، جلن نہیں ہونی چاہیے ۔اپنی قسمت پر خوش رہنا چاہیے ۔ مرشد پہلے ہی فرما گئے ہیں “خوش قسمت وہی ہے جو اپنی قسمت سے خوش ہے”۔ ہمارے مہربان کب سے ایسے ہیں؟ کیوں ایسے ہیں ؟کیسے ایسے بن گئے؟ کب تک ایسے رہیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب چیٹ جی پی ٹی، جمنائی اور وغیرہ وغیرہ ،کوئی آج تک نہیں دے سکا ۔ہمارے کئی مہربان اپنی دانست میں نیچرل انٹیلی جنس اور مصنوعی انٹیلی جنس دونوں کو ناکام کر چکے ہیں اور خود کو شاد کر چکے ہیں ۔ ہم سب کا تفصیلی انٹرویو روز جزا ہونا ہے۔ آئیے ! انٹرویو کی تیاری کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos