عالمی نظام کے بدالتے ہوئے پس منظر میں 1989میں عالمی دنیا کے رہنما اکھٹے ہوئے اور دنیا کے بچوں کے لیے ایک تاریخی عہد کیا۔ عالمی رہنماؤں نے بچوں سے عہد کیا کہ وہ ان کے حقوق کے تخفط کے لیےاقوام متحدہ کے کنونشن پر بین الاقوامی قوانین متعارف کروا کر ان کی تکمیل کریں گے۔
یہ معاہدہ ایک گہرا خیال رکھتا ہے۔ بچے صرف اپنے والدین سے وابستہ نہیں ہیں جن کے فیصلے صرف ان کے والدین ہی کریں بلکہ ان کے کچھ اپنے حقوق بھی ہوتے ہیں۔ کنونشن کے مطابق بچپن اور جوانی میں فرق ہے۔ بچپن 18 سال کی عمر تک محدود ہے۔ کنونشن کہتا ہے کہ اسی عمر میں بچوں کو عزت کے ساتھ بڑھنے، سیکھنے، کھیلنے، ترقی کرنے اور پھلنے پھولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ کنونشن تاریخ میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر منظور شدہ انسانی حقوق کا معاہدہ بن گیا ہے اور اس نے بچوں کی زندگیوں کو بدلنے میں مدد کی۔
یہ کنونشن تاریخ میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر منظور شدہ انسانی حقوق کا معاہدہ ہے۔ اس نے حکومتوں کو قوانین اور پالیسیوں کو تبدیل کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو صحت کی وہ دیکھ بھال اور غذائیت حاصل ہو جس کی انہیں زندہ رہنے اور نشوونما کے لیے ضرورت ہے۔ بچوں کو تشدد اور استحصال سے بچانے کے لیے مزید مضبوط حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے مزید بچوں کی آوازیں سنی گئیں اور انہیں معاشرے میں میں حصہ لینے کے قابل بھی بنایا گیا ہے۔
Read More: https://republicpolicy.com/world-childrens-day/
اس پیش رفت کے باوجود، کنونشن ابھی تک مکمل طور پر نافذ یا وسیع پیمانے پر جانا اور سمجھا نہیں گیا ہے۔ لاکھوں بچے اپنے حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار رہتے ہیں جیسا کہ مناسب صحت کی دیکھ بھال، غذائیت، تعلیم اور تشدد ۔ عالمی تبدیلیاں، جیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا عروج، ماحولیاتی تبدیلی، طویل تنازعات اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی، مکمل طور پر بچپن کو بدل رہی ہے۔ آج کے بچوں کو اپنے حقوق کے لیے نئے خطرات کا سامنا ہے بلکہ اپنے حقوق کے ادراک کے نئے مواقع بھی ہیں۔
پاکستان کے بچوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل میں بچوں سے زیادتی سے لے کر سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور جذباتی استحصال شامل ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی نشوونما اور تحفظ ریاست اور معاشرے کی ترجیح ہونی چاہیے۔ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اس لیے پاکستان میں کنونشن کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالتی، انتظامی اور سماجی تنظیموں کو بچوں کے حقوق پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔ اگر بہتر اصول اور طریقہ کار موجود بھی ہوں تو نتائج اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکیں گے جب تک پالیسیوں پر عمل درآمد نہ ہو۔
انیس سو نواسی میں عالمی رہنماؤں کی امید، وژن اور عزم نے کنونشن کو جنم دیا۔ یہ اب حکومتوں ، کاروباری حضرات ، معاشرے اور عالمی رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔انہیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عہد کرنا چاہیے کہ ہر بچے کو ہر حق حاصل ہے۔