حالیہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے تنازعےنے نہ صرف پردے اٹھائے ہیں بلکہ پاکستان میں مستقبل کے ڈاکٹروں کی اہلیت اور اخلاقیات پر شکوک کے سائے بھی ڈال دیے ہیں۔ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج داخلہ ٹیسٹ کی طرح اہم امتحان میں دھوکہ دینے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال صرف تعلیمی سالمیت کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہ اس اعتماد کی خلاف ورزی ہے جو مریض اپنے مستقبل کے ڈاکٹروں پر رکھتے ہیں۔
میڈیکل ایجوکیشن کا نچوڑ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کو تیار کرنا ہے جو نہ صرف باشعور ہوں بلکہ غیر متزلزل اخلاقی اقدار کے بھی مالک ہوں۔ یہ اقدار مریضوں کی صحت اور زندگی کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہیں۔ ایم ڈی کیٹ امتحان صرف ایک اور امتحان نہیں ہے۔ یہ ڈاکٹر بننے کا گیٹ وے ہے، ایک ایسا پیشہ جہاں دیانت داری سے بات نہیں کی جا سکتی۔
میڈیکل کالجوں میں جگہ حاصل کرنے کے لیے غیر منصفانہ طریقوں کا سہارا لینے کے خواہشمند ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد کا مشاہدہ کرنا مایوس کن ہے۔ اس سے ان کے اخلاقی کمپاس اور اس حلف کو برقرار رکھنے کی ان کی رضامندی کے بارے میں تشویش پیدا ہوتی ہے جو وہ بالآخر اٹھائیں گے۔ اپنے مریضوں کی صحت اور بہبود کو سب سے بڑھ کر ترجیح دینا۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
مزید برآں، دھوکہ دہی کے اس تنازعے کو تنہائی میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام میں موجود تعلیمی بے ایمانی اور شارٹ کٹس کے وسیع تر مسئلے کی عکاسی کرتا ہے۔
ایسی ذہنیت کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔ میڈیکل کالج صرف امتحانات پاس کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ جان بچانے کے لیے ضروری علم اور مہارت حاصل کرنے کے بارے میں ہے۔ وہ لوگ جو اس سخت میدان میں داخل ہونے کے لیے دھوکہ دہی پر انحصار کرتے ہیں ان کے پاس پیچیدہ طبی حالات میں سبقت حاصل کرنے کے لیے درکار سمجھ اور عزم کی گہرائی کا امکان نہیں ہے، جہاں فوری سوچ اور اخلاقی فیصلہ کرنا زندگی اور موت کا معاملہ ہو سکتا ہے۔
جبکہ اس دھوکہ دہی کے تنازعے کی تحقیقات پہلے سے ہی جاری ہیں، یہ ضروری ہے کہ مستقبل میں تعلیمی بے ایمانی کے واقعات کو روکنے کے لیے ایک مضبوط موقف اختیار کیا جائے۔ اس میں نہ صرف ملوث طلباء کو سزا دینا شامل ہے بلکہ اس طرح کے رویے کو جنم دینے والی بنیادی وجوہات کو بھی حل کرنا شامل ہے۔
اس عمل میں والدین اور اساتذہ سے لے کر پالیسی سازوں اور اداروں تک تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ تعلیم کو محض درجات اور ڈگریوں کے لیے چوہے کی دوڑ تک نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ ایک جامع سفر ہونا چاہیے جو افراد کو ذمہ دار، اخلاقی، اور ہمدرد پیشہ ور افراد میں ڈھالتا ہے۔