تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
کچھ دن پہلے بوریت کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کا ایک ناول اٹھا کر پڑھا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئیں جب بچپن میں ’عمرو عیار‘ سے لے کر ’عمران سیریز‘ اور بعد میں والدہ کے رومانی ناول پڑھا کرتے تھے۔ دل نے کہا بیٹا اس موضوع پر کچھ لکھو۔ اس مضمون کا مقصد ہلکا پھلکا طنز و مزاح ہے نا کہ کسی بھی صنف کو برا کہنا ہے۔ چلیں دیکھتے ہیں اس قسم میں پہلی طرح کی کہانیاں ’رومانی کہانیاں‘ ہوتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین ان پر ہاتھ صاف کرتی ہیں۔ ان کو پڑھ کر چند خصوصیات ہم نے نوٹ کی ہیں وہ درج ذیل ہیں:۔
پلاٹ:۔
کہانی کا پلاٹ ہمیشہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ کہانی کی ہیروئن ایک مشکل حالات میں ہوتی ہے اور شادی کی عمر لیے ہوئے عین شباب میں اپنے آنے والے دلہا کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ تمام تر غربت اور مشکل حالات کے، اس کی زندگی میں ایک ایسا شخص داخل ہو جاتا ہے جو اس کو ان حالات سے نکال لے جاتا ہے اور اس کے بعد وہ آرام سکون اور عیش کی زندگی گزارتی ہے۔
ہیروئن کا روپ:۔
لڑکی غربت کی ماری ہوتی ہے لیکن رنگ دودھیا ہوتا ہے۔ ذرا زیادہ دیکھنے سے میلا ہونے لگتا ہے۔ آنکھیں غزالی، شربتی، ناک ستواں، چہرہ متناسب جیسے کہ کوئی شے نہ کم نہ زیادہ اور چہرے پر ہلکی سی شرم لیے ہوتی ہے۔
لڑکے کا روپ:۔
چھ فٹ سے نکلتا قد، ڈارک بلیو جینز کے ساتھ آف وائٹ شرٹ میں کھلا کھلا سفید رنگ، منہ میں چیونگم دبائے، ایک ہاتھ میں ٹینس بال کا ریکٹ تھامے اور دوسرے ہاتھ سے ماتھے پہ بکھرے بال کو سمیٹتے ہوئے نظر آتا ہے۔
ایک ملاقات، دونوں کے دل خوب دھڑکتے ہیں اور پہلی نظر میں محبت ہو جاتی ہے اور پھر لڑکا، لڑکی کی خاطر اپنے والدین کو مناتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مذہب اور تصوف کا تڑکا خوب لگایا جاتا ہے، جذبات کا مصالحہ ڈالا جاتا ہے اور اختتام بڑا رنگین اور سب اچھا ہے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جس کو ہاتھوں ہاتھ لوگ لیتے ہیں۔
پاپولر ادب کی دوسری قسم میں جاسوسی کہانیاں آتی ہیں۔ اس قسم کا ادب مرد حضرات کے ذمہ ہے اور اکثر مردوں کے ڈائجسٹ میں یہی کہانیاں لگتی ہیں۔ بہرحال ہمیں تو اپنی زندگی میں کوئی اعلیٰ قسم کا جاسوس نہیں ملا لیکن ان کہانیوں میں ایک سے ایک بڑا جاسوس پایا جاتا ہے۔
پلاٹ:۔
ان کہانیوں کا پلاٹ ایک سازش یا پہیلی پر رکھا جاتا ہے، کسی قتل کا سراغ یا چوری کا سراغ وغیرہ لگانا۔ اس میں شامل جاسوسی کہانی وہ عمدہ ہوتی ہے جس میں آخر تک تجسس قائم رہتا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر مصنف اس کو قائم نہیں رکھ سکتے۔
ہیرو کا سراپا:۔
ہیرو اس میں ایک لا پرواہ طبیعت کا مالک ہوتا ہے جس کو دیکھ کر اکثر لڑکیاں اس پر مر مٹتی ہیں۔ جب کہ اس کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی۔ وہ اپنا مشن مکمل کرنا چاہتا ہے۔ کسرتی بدن والا چھ فٹ کا نوجوان جاسوسی ناول کا ہیرو بن سکتا ہے۔
اکثر اس قسم کے ناولوں میں ہیروئن نہیں ہوتی۔ جاسوسی ناولوں میں تڑکا لگانے کے لیے حب الوطنی اور مذہب کا سہارا اکثر جگہوں پر لیا جاتا ہے۔
تیسری قسم میں طلسماتی کہانیاں شامل ہیں۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر لگتا ہے کہ انسان اپنی ناآسودہ خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے کتنا سوچتا ہے۔
اجزاء:۔
طلسماتی کہانی کے اجزاء میں شامل ہر شے جادو سے ہوتی ہے۔ جادو کا مطلب یعنی ’کچھ بھی‘ تو کچھ بھی۔ جیسے اڑن قالین، عمرو عیار کی زنبیل، پرستان، جادوگر، جن بھوت وغیرہ وغیرہ، پیچھے مڑ کر مت دیکھنا پتھر کے ہو جاؤ گے۔
ہیرو:۔
اس قسم کی کہانیوں کی ابتداء داستانوں سے ہوئی اور سب سے پرانی کہانیاں یہی موجود ہیں۔ داستان کا ہیرو شہزادہ ہوتا ہے یا پھر کوئی ایسا کردار جس کے پاس مافوق الفطرت قسم کی قوتیں موجود ہوتی ہیں، مگر وہ نیک سیرت روح ہوتی ہے جس میں بھلائی موجود ہوتی ہے اور بدی سے لڑنے کی قوت بھی ہوتی ہے۔
داستان کی شہزادی، پری خوبصورتی میں جنت کی حوروں کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ ان میں کوئی بھی خامی نظر نہیں آتی۔ بعض مرتبہ شہزادی کا آدھا جسم انسان، آدھا مچھلی کا بھی ہو سکتا ہے۔
اس قسم کی کہانیوں میں بھی اختتام مثبت بات پر ہوتا ہے کہ شہزادہ، شہزادی کو بچا لیتا ہے یا شہزادہ اس دنیا کو تباہ ہونے سے بچا لیتا ہے۔ مثبت انجام اس کہانی کی جان ہے۔
لیکن یہ بات سچ ہے کہ پاپولر ادب نے ادب عالیہ سے زیادہ خدمت کی ہے اور زبان کو زندہ رکھا ہوا ہے، کہانی کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.