Premium Content

اب آپ بتائیں آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:           ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہے۔

انسان کی سب سے بڑی خامی لمحہ حال کا اسیر ہونا ہے۔الہامی کتاب کہتی ہے کہ ہر انسان پر ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر شئے نہیں تھااورجلدایسا وقت بھی آنے والا ہے جب پھروہ خاک نشین ہوجائے گا۔ اس کے باوجودہم سب اپنے ماضی کو فوراً بھول جاتے ہیں اور مستقبل بھی ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ ہم صرف لمحہ حال کو ہی واحدسچ خیال کرتے ہیں۔

         ایک محاورہ ہے کہ دنیا میں کوئی غلام ایسا نہیں ہے جس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ نہ رہا ہو اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہے جس کے آباؤ اجداد میں کوئی غلام نہ رہا ہو۔یہ میرے خیال میں بہت بڑی کائناتی سچائی ہے۔

         زندگی کی چند بڑی سچائیوں میں سے ایک سچائی یہ بھی ہے کہ زندگی ہر شخص کو دوسرے سے یہ پوچھنے کا موقع ضرور دیتی ہے کہ  اب آپ بتائیں کہ آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں؟ ٹھہریے میں آپ کو پورا قصہ سناتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ تھل کے علاقے میں ایک شخص رہتا تھا جس کی بود و باش بھیڑوں کی پرورش پر تھی اس کو قرضے کی ضرورت پڑی تو کسی نے اس کو بتایا کہ بینک قرضہ دیتا ہے۔ وہ بینک گیا تو بینک کے منیجر نے کہا کہ آپ کو ہم ایسے قرضہ نہیں دے سکتے پہلے آپ کو ہمارے پاس کوئی چیز گروی رکھوانی پڑے گی چونکہ آپ بھیڑوں کی پرورش کرتے ہیں توبتائیں آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں؟اس حساب سے آپ کو قرضہ ملے گا۔ہمارے تھلوچی بھائی نے جواب دیا ”چالیس“۔چالیس بھیڑیں گروی رکھ کر بینک منیجر نے دو لاکھ کا قرضہ دے دیا۔ اس دفعہ ہمارے تھلوچی بھائی کی بھیڑیں اچھی قیمت پہ فروخت ہو گئیں اور باقی معاملات بھی ٹھیک رہے اوراچھا خاصہ پیسہ اس کے پاس آگیا۔ وہ پیسے لے کرقرضہ واپس کرنے کے لیے جب بینک پہنچا تو اس کے پاس دس لاکھ کے قریب روپے تھے۔ اُس نے وہ دس لاکھ روپے نکالے اور دو لاکھ الگ کر کے منیجر کو دے دیئے۔باقی روپے دیکھ کر منیجر کے اندر کا بینکر جاگ اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ یہ باقی پیسے بھی ہمارے بینک میں جمع کرا دیں ہمارے تھلوچی بھائی نے بڑی سادگی سے پوچھا پہلے اب آپ یہ تو بتائیں کہ آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں؟ 

         اس سے ثابت ہوا کہ زندگی ہر کسی کوایک دوسرے سے یہ پوچھنے کاموقع ضرور دیتی ہے کہ اب آپ بتائیں کہ آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں۔بس ترتیب کا فرق ہوتا ہے کوئی پہلے تو کوئی بعد میں۔یہی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔

         ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ دل ہی دل میں خود کو”گوگل“ اور دوسرے کو”چبل“ سمجھتے ہیں۔ ہمارے محلے میں ایک ٹانگے والا تھا جو بڑی خوبصورت گفتگو کرتا تھا۔ ایک دن ایک سواری نے دور جانے کا کہا۔اس نے کہا کہ کرایہ آپ خود ہی طے کر لیں۔ سواری نے کرایہ بڑا کم بتایا۔جس پر ٹانگے والے نے برجستہ کہاذرا آہستہ بولیں، میں تو ہر طرح کی بات برداشت کر لیتا ہوں مگر میرا گھوڑا بڑا غیرت مند ہے اور اس کو غیر معقول باتیں برداشت کرنے کی عادت نہیں ہے اگلی دفعہ شاید آپ اس طرح کی بات کریں تو وہ مائنڈ کر کے آپ کے ساتھ کوئی حرکت نہ کربیٹھے۔

         ایک ڈاکٹرصاحب ایک دفعہ ایک مریض کوکہنے لگے کہ آپ کی ٹانگ اگرچہ ابھی تک سوجی ہوئی ہے مگر میرے لیے یہ فکر کی بات نہیں ہے مریض نے فوراً کہا ڈاکٹر صاحب کل اگر کبھی آپ کی ٹانگ سوجی ہوئی تو میرے لیے بھی وہ فکر کی بات نہیں ہوگی۔فکر تو اُس کو ہوتی ہے جس کی اپنی ٹانگ سوجی ہوئی ہو۔

جب تک بندے پہ یہ وقت نہ آئے کہ لوگ اس سے پوچھ سکیں کہ آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں، بندے کو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔اور اگر خدانخواستہ کبھی یہ وقت آجائے کہ سب لوگ اُس سے پوچھنے لگ جائیں کہ بھائی پہلے آپ بتائیں آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں تو بندے کواللہ تعالیٰ سے توبہ کر کے اپنے اعمال کاجائزہ لینا چاہیے۔یہ قانون نہ صرف فرد کے لیے سچا ہے بلکہ میرے خیال میں معاشرے کے لیے بھی کارگرہے۔جب باقی دنیا کسی ملک سے معاملات کرنے سے پہلے پوچھنے لگ جائے کہ پہلے آپ بتاؤ  آپ کے پاس کتنی بھیڑیں ہیں؟تو اس معاشرے کو بھی من حیث القوم اپنے اعمال کا جائزہ لیناچاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos