تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
کچھ عرصے پہلے ٹی وی پرایک صابن کی تشہیر کرتے ہوئے ایک خاتون بڑی لگاوٹ اوربناوٹ کے ساتھ کہتی تھی ”آخر لوگ ہمارا”فیس“ ہی تو دیکھتے ہیں مگر اب کوئی خاتون ایسے نہیں کہہ سکتی۔ چند دن پہلے تک انسان کو یہ غلطی فہمی تھی کہ اُس کا”فیس“ ہی سب کچھ ہے بالخصوص خواتین یہ سمجھتی تھیں کہ لوگ اُن کا”فیس“ دیکھے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ جدید دور کا ایک بہت بڑا انکشاف یہ ہے کہ اب لوگ کسی کا ”فیس“ نہیں دیکھتے بلکہ اپنی ”فیس بک“دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہی رہتے ہیں چاہے اردگردکتنے ہی ”فیس“ کیوں نہ موجود ہوں۔ جب سے ”فیس“ کو”فیس بک“ کا سامناکرناپڑا ہے ”فیس“کی ”فیس سیونگ“مشکل ہوگئی ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
دورِطالب علمی میں، میں ایک دفعہ اسلام آباد گیا جہاں میرے سات دوست ایک کمرہ لے کر رہ رہے تھے۔اُن کے آپس میں باہمی تعلقات اچھے نہیں تھے۔میرا ایک دوست کہنے لگاکہ ڈاکٹر صاحب ہمارا کمال دیکھیں اس کمرے میں ہم سات لوگ رہ رہے ہیں اورپھربھی ہربندہ اکیلا اکیلا رہ رہا ہے۔ جون ایلیا کوکہنا پڑاتھااُن کا اپنی گلی چھوڑ کر محبوب کی گلی میں آناایک گلی کی بات تھی مگر گلی گلی گئی۔ ایسے ہی کچھ عرصے پہلے تک جواسلام آباد کے ایک کمرے کی بات تھی اب گھر گھرکے ہرہر کمرے تک آپہنچی ہے اور اس بات کامطلب سمجھ آگیا ہے کہ انسان ہجوم میں بھی تنہا کیسے ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں کتابی چہرہ شاعروں کی پہلی پسند ہوتاتھا جبکہ کچھ لوگوں کی پہلی پسندچہرہ اورکچھ لوگوں کی پہلی پسند کتاب ہوتی تھی مگر اب ہمارے ہاں نہ کسی چہرے کی وہ قدروقیمت رہ گئی ہے اورنہ کتاب کی٭۔ کتابی چہروں کے پرستارتونایاب ہی ہوگئے ہیں۔ ”فیس“ اور”بک“ کازمانہ گزر گیا ہے اورفیس بک کازمانہ آگیاہے۔ کسی نے بہت پہلے کہا تھا وہ آئی، اُس نے دیکھا اورفتح کرلیا
فیس بک کی فتوحات دیکھ کرلگتا ہے کہ یہ”فیس بک“کے بارے میں ہی کہاگیاتھااوروہ جو کہاجاتاتھا
“ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، سب اُس کے اسیرہوئے ”
تو یہ بات بھی ”فیس بک“ پر ہی صادق آتی ہے۔ہمارے زمانے میں اگرکوئی بڑا موجودہوتاتھا تونوجوان اُس سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے آج کل بھی بالکل ایسا ہے کتنے بزرگ بیٹھے ہوں نوجوان اُن سے بات کرنا تو درکناراُن کو دیکھنے کی ہمت نہیں کرتے کیونکہ اُن کی ساری ہمت اورتوانائی کامحور اُن کی ”فیس بک“ ہوتی ہے اور”فیس بک“ اُن کو مکمل طور پر ”بک“ کر چکی ہوتی ہے۔اس تعلق میں کوئی غیر دخل انداز نہیں ہوسکتا۔
نارسائی اورپارسائی کے فیصلے اب ”فیس“ دیکھ کرنہیں ”فیس بک“ دیکھ کرہوتے ہیں حالانکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ڈیجیٹل فرشتے ہوتے ہیں فیزیکلی پورے شیطان ہوتے ہیں اور شیطانی کرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر ”فیس بک“ پر اُن کی پوسٹیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دودھ سے دھلے ہوئے ہیں اورزندہ ولی ہیں۔
فیس بک کی وجہ سے فاصلے ختم بھی ہوگئے ہیں اور بڑھ بھی گئے ہیں۔وہ لوگ جن کے درمیان سمندرحائل ہیں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں اوربعض اوقات یوں لگتا ہے کہ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان صدیوں کافاصلہ آگیا ہے۔
پہلے لوگ دوست کو درخواست کرنا دوستی کی توہین سمجھتے تھے ”فیس بک“ پردوستی ہوتی ہی درخواست پر ہے ٭۔پہلے دوست کی پوسٹ نہیں دیکھی جاتی تھی۔اب ”فیس بک“ پردوست کی پوسٹ نہ دیکھی جائے تو دوست ناراض ہوتا ہے۔دوست کی پوسٹ بلکہ ہرپوسٹ نہ صرف دیکھنی پڑتی ہے بلکہ پسند بھی کرنی پڑتی ہے ٭۔پہلے دوستیاں نسل درنسل چلتی تھیں اب ایک ”کلک“ پردوستی ہوتی ہے اوردوسرے ”کلک“ پرختم ہوجاتی ہے۔
پہلے لوگ اپنے فیس کی گریس کے بارے میں بڑے فکر مند ہوتے تھے اب لوگ اپنی ”فیس بک“ کے بارے میں زیادہ پریشان رہتے ہیں ٭ ”فیس بک“ نے ہمارے معاشرے سے ”بُک“ تقریباًختم کردی ہے ”بُک“کے علاوہ ”فیس بک“ کس کس کوختم کرے گی یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ آنے والے دورِ میں بچے اپنے والدین کا بھی شاید”فیس“ نہ دیکھیں صرف ”فیس بک” دیکھیں گے۔
ہم ”فیس بک“ کو استعمال کررہے ہیں یا ”فیس بک“ ہمیں استعمال کررہی ہے اس کاصحیح جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔