مصنف ڈاکٹر محمد نصر اللہ جی سی ویمن یونیورسٹی ، سیالکوٹ میں لیکچرر ہیں
شیڈو(سایہ) آرکی ٹائپ پر غوروفکر کے دوران میں درج ذیل سوالات سامنے آتے ہیں:آرکی ٹائپ کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ شیڈو (سایہ) آرکی ٹائپ سے کیا مراد ہے؟ انسانی زندگی میں اس کی حقیقت کیا ہے؟ اپنی ذات کے حقیر پہلوؤں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہے؟ اپنی فطرت میں موجود جن بھوت،شیطان سے آگاہ ہونے کی اہمیت کیا ہے؟اس گنہگار کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ تاریکی کا دائرہ کارایک فرد تک محدودہے یا اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے؟مجموعی طور پر ہماری دنیا پرظلمت چھا رہی ہے یا ہم روشنی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟موجود ہ زمانے میں ذاتی و اجتماعی سائے پر بات کرنے کی کس حد تک ضرورت ہے؟ اپنی ذات میں موجود کجیوں کو قبول کرنے یاان کی پروا نہ کرنے کے نفسیاتی اثرات کس قسم کے ہوسکتے ہیں؟ ذات کے کم تر، ادناپہلوؤں کو کیسے جانا جاسکتا ہے؟ اپنے اندر پھیلتی، توانا ہوتی ہوئی تاریکی پر قابو پایا جاسکتا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو شیڈو سے آگہی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں؟ کیا یہ بات درست ہے کہ جو ادب زندگی کی تاریک تصویر پیش کرتا ہے، معاشرے کو کمزور کرتا ہے؟ کیا ادب میں محض رجائیت پسندی کا اظہار ہونا چاہیے؟ کیااردو میں ایسا ادب تخلیق ہوا ہے جس کے ذریعے انسانی ذات کے حقیر پہلوبھی سامنے آئے ہوں؟اگر ہوا ہے تو کن کن اصناف میں ظلمت کے آرکی ٹائپ کا اظہار ہوا ہے؟اردو تنقیدمیں ڈسٹوپین عناصر کاذکرکس حد تک ہواہے؟اردو کے نفسیات دانوں نے اس آرکی ٹائپ پر کس حد تک لکھا؟ ادب میں انسانی ذات کے تاریک گوشوں کے بیان پیچھے کیا معنویت ہوسکتی ہے؟
ژونگ کے نزدیک سایہ ہماری ذات کا وہ کم تر، منفی حصہ ہوتا ہے جسے ہم چھپانے کی، دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کا ہم سامنا نہیں کرنا چاہ رہے ہوتے۔جسے اپنی ذات کا حصہ جاننے سے انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو اشرف مخلوق سمجھنے کی بنا پر ہم یہ تسلیم نہیں کر پاتے کہ ہماری ذات سے ارزل و ہیچ اعمال بھی سرزد ہوسکتے ہیں۔ہم اپنی ذات کے روشن حصے کو قبول کرتے، اسے سراہتے ہیں؛ مگر تاریک پہلوؤں کو اپنی ذات کا حصہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہماری اشرفیت خطرے میں پڑتی ہے۔ اپنی اور دوسروں کی نظر میں ایغو مجروح ہوتی ہے۔ گویااپنی نظروں میں بنا ہوا وقار جاتا رہتا ہے؛ حالانکہ حقیقت اس کے الٹ ہوتی ہے۔ اپنی ذات کے حقیر پہلوؤں کو قبول کرنے سے ہم خود کو روشنی میں پاتے ہیں اور اپنی نظر میں حقیقی عزت محسوس کرتے ہیں۔ہم خود کے متعلق ایک متوازن رائے اسی صورت میں قائم کر پاتے ہیں جب اپنی ذات کے تاریک حصے کو بھی قبول کرتے ہیں۔
اپنے آپ کو کم تر سمجھنا، خود سے سرزد ہوجانے والی کسی غلطی کی بنا پرمسلسل خود کو ملامت کرنا، احساس جرم ہی میں مبتلا ہو کے رہ جانااپنے سایہ کے زیر اثر آجانے کے مترداف ہے۔سایہ سے لڑا نہیں جاتا، اسے قبول کیا جاتا ہے۔ سائے کا ہونا فطری بات ہے؛اسے قبول نہ کرنے سے یہ خطرناک ہوتا جاتا ہے۔ یہ زیادہ توانا ہو جائے تو شخصیت،اپنے آپ ہی کے لیے خطرہ بن کے رہ جاتی ہے۔لہذاانسان ہونے کا معنی یہ ہے کہ ہم سے چھوٹی موٹی خطائیں ہوسکتی ہیں۔اپنی یا دوسروں کی خطاؤں پہ خود کو یا دوسروں کو گرفت میں لینے کے بجائے، اپنی غلطی تسلیم کرنا، معافی مانگنا یا معاف کر دینا صحت مند عمل ہے؛ مگر یہ آسان نہیں۔ اپنی ذات کی تاریکی کا سامنا کرنے کی جرات کرنا،اسے قبول کرنا مشکل عمل ہے؛مگریاد رہے کہ انسانی ذہن مطمئن اسی وقت ہوتا ہے جب یہ کسی بھی مسئلے کو صحیح طور سے سمجھ کر اس کا حل نکال پاتاہے۔کوئی بھی اپنے آپ سے بچ نہیں سکتا؛جب تک کہ وہ اپنی ذات کی حقیقت کو دیانت داری سے جان نہ لے۔اسی لیے ژونگ کے خیال میں مکمل شخص وہ نہیں ہوتا، جو اپنی زندگی سے احساس جرم یا پریشانی کو ختم کرکے رکھ دیتا ہے؛بلکہ متوازن انسان وہ ہوتا ہے جو احساس جرم میں مبتلا کرنے والی باتوں کو محسوس تو کرتا ہے لیکن ان کو محسوس کرنے پر اپنے آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا۔
خود پر الزام لگانے کامعنی خود کو کٹہرے میں کھڑاکرکے اپنی تفتیش کرنے کے مترداف ہوتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟تم تو بہت اعلٰی انسان تھے، تم نے غصہ کیوں کیا؟ گالی کیوں نکالی؟ جھوٹ کیوں بولا؟ ایسی حرکت کیوں کی جس سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا؟ اپنی نظر میں، دوسروں کی نظر میں کیا مقام رہا؟ خود کو مہذب انسان ماننے کا دعوی کہاں گیا؟ خود سے غلطی ہونے کی بنا پرایسے سوالات ہر معقول اور دیانت دار آدمی اپنے سامنے رکھتا ہے،یہ خود احتسابی کا عمل قطعاًمعیوب نہیں؛ مگر خود کو مسلسل موردالزام ٹھہرانا انسان کو مریض بناکے رکھ دیتا ہے۔ انسان کو اپنے انسان ہونےکامعنی ٹھیک طرح سے معلوم ہو تو وہ تاریکی کا سامنا کرتا ہے؛مگر اس میں گم ہی نہیں رہتا بلکہ اپنی ذات کے روشن حصے کی جستجوکرتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ وہ اندھیرے سے روشنی میں آجاتا ہے۔اندھیرے کو قبول کرنے کا عمل اسے کمزورنہیں کرتا، بلکہ بہادر بناتا ہے۔گویا ذات کے تاریک حصوں کوقبول کرنا اسے روشن ضمیری عطا کرنے کا باعث بنتا ہے۔یہ روشن ضمیری اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک اپنی ذات کی حقیقت سے آگاہ نہ ہوا جائے۔
کارل ژونگ نے اجتماعی لاشعور کے جن آرکی ٹائپس کو بالخصوص اہمیت دی، شیڈو ان میں سے ایک ہے۔یاد رہے کہ شیڈو سایہ ہے، وجود نہیں ہے۔جو لوگ مستقل طور پر منفی پہلوؤں کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں وہ دراصل اپنے شیڈو کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ شیڈو ان پرحاوی ہورہا ہوتا ہے۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ کی شخصیت میں فلاں منفی پہلو ہے، وہ اسے ماننے کے بجائے فوراً اس کا دفاع کریں گے۔وہ اپنی غلطی، کمزوری، خامی، خباثت اورعفریت کو مانیں گے نہیں، محض اس کا دفاع کریں گے؛حالانکہ شیڈو کو مان لینے سے وہ غائب ہوجاتا ہے۔
اگرچہ مغربی ماہرین نفسیات نے سینکڑوں آرکی ٹائپس کا سراغ لگایا؛مگر ژونگ نے جن آرکی ٹائپس پر لکھا وہ اپنی اہمیت و معنویت کے اعتبار سے آج بھی قابل توجہ،قابل ذکر ہیں۔ مثلاً شیڈو آرکی ٹائپ کا تعلق ہم سب کی انفرادی و اجتماعی زندگی سے ہے۔یہ ہمارے اندر چھپا ہوا وہ وحشی ہے جو ہروقت ہمارے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جو موقع بہ موقع ظاہر ہوتارہتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم بلاوجہ غیرمعقول رویے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ مثلاًمعمولی سی بات پہ بہت غصے میں آجاتے ہیں۔ عورت کے ابھار دیکھ کے ان میں ڈوبنا شروع ہوجاتے ہیں؛حتی کہ تصور ہی تصور میں اس سے مجامعت کرنے لگتے ہیں۔ یہی شخصیت کے تاریک پہلو ہوتے ہیں۔ یہ تاریکی انسانی شخصیت کا کل نہیں، آدھا حصہ ہوتی ہے۔