Premium Content

Add

افرادی قوت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی

Print Friendly, PDF & Email

تحریر ۔ شفقت اللہ مشتاق

 قوم کی تعمیر وترقی کی بات کی جائے تو  افرادی قوت کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ افراد آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔ قدم سے قدم ملا کرچلنا شروع کردیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اتحاد،اخوت اور محبت کی زنجیر بنا دیں تو وقت کا فیصلہ ان افراد کی قوم کے حق میں آجاتا ہے اور اس کے علی الرغم جس قوم کے افراد اپنے دلوں میں کینہ، نفرت، بغض اور کدورت کے سانپ پال لیتے ہیں۔ اپنی اپنی سوچ کو مادہ پرستی، حرص اور لالچ سے مغلض کر لیتے ہیں اور اپنی اپنی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی طرف موڑ دیتے ہیں وہ قومیں صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جاتی ہیں۔ گویا کہ قوموں کے عروج وزوال کے پیچھے سب سے بڑا اہم محرک ہر قوم کی افرادی قوت کے سوچنے کے انداز کا  عمل دخل ہے۔  شروع شروع میں ہم سب جدت کے خلاف ہوتے ہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ جس کسی نے بھی جدت کی بات کی ہے اس نے کائنات کی نوک پلک سنوارنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور یوں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔

ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور افراد نے یہ تقاضے نبھا کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دینا ہوتا ہے  تاکہ ارتقا کی کہانی کا تسلسل برقرار رہے۔ علم و حکمت سے تصویر زیست میں رنگ بھرا جاتاہے۔ اسی لئے انبیاء کی میراث علم و حکمت کو قرار دیا گیا۔ انسان کو مہد سے لحد تک پڑھنے کا حکم دیا گیا بلکہ علم کا حصول ہر مرد وزن پر فرض قرار دیا گیا۔ اقرا سے ہم مسلمانوں کی جدو جہد کا آغاز ہوا اور پھر زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر مسلمان جہاں جہاں بھی گئے وہاں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کو انہوں نے یکسر بدل کے رکھ دیا۔ تاریخ گواہ ہے ہم ہی سپین پہنچ کر یورپ میں نشاہ ثانیہ کی بنیاد رکھے جانے کا باعث بنے۔ ہم نے ہی ہندوستان میں  شودر اور برہمن کی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی اور پھر ہم نے ہی قیصروکسری کے میناروں کو توڑا۔ اور  تاریخ عالم نے دیکھا کہ جب وہی مسلمان پڑھے لکھے جاہل بن گئے اور دیگر قوموں نےاپنے آپ کو مختلف علوم سے مزین کیا تو حاکم محکوم اور خادم مخدوم بن گئے۔ ہمارے پاس افرادی قوت بھی تھی اور لمبی چوڑی سلطنتیں بھی تھیں لیکن کہانی ہی الٹ ہوگئی۔ اور سارے وسائل دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اب وقت کی اہم ضرورت ہے ہم کل سے سبق سیکھیں اور آج کی بات کریں۔ آج ہم علم کے میدان میں بہت ہی پیچھے رہ گئےہیں۔ یہ خیال اب ہمیں اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔ دیر آۓ درست آۓ۔  کاش ہم آج ہی ہوش کے ناخن لیں اور آنکھیں کھول کر دیکھنا شروع کردیں۔ گلوبلائزیشن نے پوری کائنات ہماری تلی پر رکھ دی ہے۔ موبائل ہے اور ہم ہیں اور موبائل میں کیا کچھ نہیں ہے۔ بس یہ آپ پر منحصر ہے آپ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کی چکر بازیاں، مولویوں کی آپس کی بحث و تمحیص،آڈیو اور وڈیو کی اذہان و قلوب کو پراگندہ کرنے کی وارداتیں، سائنسی علوم کی دنیائے عالم میں اہمیت و افادیت، مذہب،سیاست، فلسفہ، منطق،نجوم اور دیگر علوم وغیرہ وغیرہ آج کے انٹر نیٹ کی دنیا میں جا کر جو دل میں آئے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تو معجزہ ہے گھر میں بیٹھے بیٹھائے کائنات ساری دیکھ لی جائے۔ اس ساری ترقی کے پیچھے انفارمیشن ٹیکنالوجی کارفرما ہے۔ اور مغرب نے اسی ٹیکنالوجی کی بدولت مشرق مغرب اور شمال جنوب سب کچھ فتح کرلیا ہے۔

مذکورہ سطور میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہم آئی ٹی کی دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے آج تک اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا ہے۔ علم بحیثیت مسلمان ہماری اساس ہے اور ہم نے علم کو فتووں، مناظروں اور نعروں تک محدود کردیا ہے۔ ہم تاحال مغربی علوم کے حصول کے سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ بلکہ حصول علم کے سلسلے میں چین جانے والی حدیث کو بھی ہم نے مکمل طور پر ضعیف قرار دے دیا ہے۔ تاکہ کوئی پاکستانی چین جاکر چین والوں کی طرح سوچ کر امریکہ کو سوچنے پر مجبور نہ کردے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ہمارے دوست ڈاکٹر قیصر عباس چین جا پہنچے اور وہاں سے پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے واپس آئے اور شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے اور بالآخر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سرگودھا کے وائس چانسلر بن گئے ہیں۔ حالیہ ان کی ایک کتاب ہیومن سرمایہ کاری ،انوویشن اور ڈسرپٹو آئی ٹی منظر عام پر آئی ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا موضوع ہمارے ہاں افرادی قوت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق ہے۔ جتنی ہماری آبادی بڑھ چکی ہے اور مسائل کا ہڑ آیا ہوا ہے اس کا علاج صرف اور صرف  افراد کو ہنر کے زیور سے آراستہ کرنے میں ہی ہے۔  ہنرمند افراد ہی جدید تقاضوں پر پورا اتر سکتے ہیں۔ ہم نے شروع شروع میں ٹیکنالوجی کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی اورجب ٹیکنالوجی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ہم نے لیپ ٹاپ بانٹ کر انقلاب لانے کی کوشش کی جبکہ ہم نے مطلوبہ اہداف برائے ڈویلپمنٹ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں  آج تک سنجیدگی سے نہیں سوچا ہے۔ پاکستان میں پہلی آئی ٹی پالیسی اور اسکے نفاذ کے لائحہ عمل کی منظوری وفاقی حکومت نے 2000 میں دی۔ اس وقت ڈاکٹر عطاء الرحمن وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی تھے۔ اس پالیسی کے تحت جملہ جامعات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کو یقینی بنانے کا عزم کیا گیا۔ بعد ازاں دو پالیسیاں 2015 اور 2018 میں منظور کی گئیں۔ اساتذہ کا  تربیتی پروگرام 2000 میں متعارف کروایا گیا اور 70 اضلاع میں 220000 اساتذہ کو تربیت دی گئی۔ 2014 میں ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق کل 144 ممالک میں سے پاکستان کا 111 نمبر تھا۔ پاکستان کا شمار انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے لحاظ سے ٹاپ ممالک میں ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان کا دسواں نمبر ہے. اس وقت پاکستان  دنیا کی چوتھی بڑی آزادانہ طور پر کام کرنے والی مارکیٹ ہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی سالانہ کمپاؤنڈ شرح نمود برائے آئی ٹی اور اس سے متعلقہ سروسز 18.85 فیصد ہے۔ پاکستان اس شعبہ کی برآمدات میں سالانہ ایک بلین ڈالر سے زیادہ آمدن حاصل کررہا ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارے وفاق اور صوبوں میں قائم ہو چکے ہیں۔ سرکاری اداروں میں خود کاری اور انضمام کا کام تیزی سے کیا جا رہا ہے۔

 مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی پی سی ہوٹل لاہور میں منعقد ہوئی جس میں مہمان خصوصی صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں تھے۔ ڈاکٹر شاہد منیر چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اعداد و شمار کی روشنی میں  ایک مکمل تجزیہ پیش کیا جس کا لب لباب یہ تھاکہ کاش ہم بروقت اس موضوع کی حساسیت کا اندازہ کرتے تو آج ہم اس اہم میدان میں دنیا سے بہت پیچھے نہ ہوتے اور اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی افرادی قوت کو آئی ٹی کی تعلیم سے مزین کریں اور سالانہ بجٹ میں اس مد میں کثیر تعداد میں فنڈز مخصوص کئے جائیں۔آج کی نوجوان نسل کو کار آمد بناکر بے روزگاری کو ختم کیا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرسکیں۔ انشاء اللہ یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گا۔ فی الحال ڈاکٹر قیصر عباس اور ان کے معاون لکھاریوں ( پروفیسر ڈاکٹر شہباز اور پروفیسر ڈاکٹر مبارک) نے اس اہم موضوع پر کتاب رقم کرکے قوم کی توجہ ایک اہم موضوع کی طرف مبذول کروائی ہے۔ جس کے لئے وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آئیے اس کتاب کے مطالعہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں داخل ہو کر تحقیق و جستجو کی آکسیجن سے اپنے خون کو گرماتے ہیں زندگی کی ریس میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1