Premium Content

عقل گو آستاں سے دور نہیں

Print Friendly, PDF & Email

اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تا کہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔

عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں

دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں

اک جنوں ہے کہ با شعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ با شعور نہیں

ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں

بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں

ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادۂ ظہور نہیں

ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos