پاکستان میں عسکریت پسندی کے سب سے زیادہ مایوس کن پہلوؤں میں سے ایک پہلو لڑکیوں کی تعلیم کو روکنا ہے۔ اتوار کی رات گئے، شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دو سرکاری مڈل سکولوں کو، جہاں 500 کے قریب طالبات زیرِ تعلیم تھیں، کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ عسکریت پسند جانتے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں طلباء کو دوسرے اداروں میں اتنی جلدی داخلہ نہیں مل سکتا ، اور ان کی تعلیم کواس دہشت گردی سے شدید دھچکا لگے گا۔ اس ممکنہ نتیجے میں ایک خاص تشویش ہے، کیونکہ پاکستان میں پرائمری اسکول کے بعد لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح خاصی تشویشناک ہے، اور اس کی ایک وجہ ملک کے بیشتر حصوں میں لڑکیوں کے مڈل اسکولوں کی ناکافی تعداد ہے۔ اتوار کے حملے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایک اور واقعہ جو اس سے مختلف ہے سوات کے علاقے سنگوٹہ رونما ہوا جس میں ایک پرائیویٹ اسکول کے باہر تعینات پولیس اہلکار نے اسکول وین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک سات سالہ بچی جاں بحق اور پانچ دیگر طالبات اور ایک ٹیچر زخمی ہوگئیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے سوات میں والدین کو دھمکیاں دینا شروع کرنے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف پرتشدد مہم کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکی ہے ۔ لڑکیوں کے تعلیم کے حوالے سے ملالہ یوسفزئی جن پر قاتلانہ حملہ بھی ہو ا تھا نے بہت کوشش کی جس کی بدولت وہ ایک عالمی آئیکن بن گئیں۔ 2018 میں، گلگت بلتستان کے انتہائی قدامت پسند ضلع دیامر میں دو دنوں کے دوران مبینہ طور پر ‘عسکریت پسندوں’ نے لڑکیوں کے 14 اسکولوں کو نذر آتش کیا۔ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے سے افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی سرحدی علاقوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان گزشتہ چند سالوں میں عسکریت پسندی کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیاں کھونے کے دہانے پر ہے۔ اے پی ایس حملے کے بعد ریاست اور معاشرے نے پرتشدد انتہا پسندی کے خلاوسیع جنگ لڑی اور اس میں کامیابی حاصل کی ۔ تاہم دہشت گردوں نے پھر سے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ جس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ مبہم مذاکرات میں افغان طالبان کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی ہوئی لیکن عسکریت پسندی کی زد میں آنے والے علاقوں کے مکینوں کی طرف سے سخت الفاظ میں مذمت کی گئی، جس نے تباہی پھیلانے والے ایجنٹوں کو ملک میں قدم جمانے کی اجازت دی ہے۔ اس لعنت کو دوبارہ جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مزید خون اور قربانیاں درکار ہوں گی۔