Premium Content

آٹے کا بحران

Print Friendly, PDF & Email

موجودہ آٹے کا بحران کئی مہینوں سے افق پر منڈلا رہا تھا۔ گندم کی کٹائی کے وقت یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سال ملکی ضروریات کے اعتبار سے گندم کی پیداوار کم ہے۔
موسم گرما کے تباہ کن سیلاب نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں گندم کے اسٹوریج ہاؤسز کو بری طرح نقصان پہنچا۔ بلوچستان کے وزیر خوراک نے فوری مدد کے لیے ہفتے کے روز ہنگامی کال جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے پاس گندم کی اتنی انوینٹری رہ گئی ہے کہ اس سے مزید کچھ دن ہی گزارے جا سکتے ہیں۔

جہاں تک دوسرے صوبوں کا تعلق ہے وہاں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ سندھ کے ضلع میر پورص میں جہاں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم گورنمنٹ کی طرف سے کم قیمت آٹے کے حصول کے لیے جمع ہوا تھا، اس میں بھگدڑ مچ جانے سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ یہ حالات آئندہ کے مشکل ترین دور کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
پنجاب اور سندھ اپنی گندم اور آٹے کو اپنی سرحدوں سے گزرنے نہیں دے رہے جیسا کہ بلوچستان نے الزام لگایا ہے۔ خیبرپختونخوا میں فلور ملرز نے بھی پنجاب سے گندم کی کم سپلائی کی شکایت کی ہے ۔ وفاقی حکومت بھی گندم بحران کا ذمہ دار صوبوں بالخصوص پنجاب کو ٹھہرا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/mehngai-main-mazeed-azefy/

نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے وزیر طارق بشیر چیمہ نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ گندم کی کوئی کمی نہیں ہے کیونکہ تمام صوبوں کے پاس گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہے لیکن وہ اناج (آٹا ملوں کو) جاری نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پنجاب نے صوبے میں قلت کو کم کرنے کے لیے فلور ملوں کے گندم کے کوٹے میں اپنے اسٹاک سے اضافہ کر دیا ہے۔
ملوں کو کم قیمت والی گندم کی سپلائی میں اضافے سے پنجاب میں آٹے کی قلت کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے صوبوں کے پاس اتنا ذخیرہ نہیں بچا ہے کہ وہ اگلی فصل تک چل سکے۔اس کے نتیجے میں کم متوسط آمدنی والے صارفین کو دوہری پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ آٹے کی قلت کے باعث ملک کے بیشتر حصوں میں آٹے کی قیمتوں میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

آٹے کا مارکیٹ ریٹ ،سرکاری رعایتی قیمت سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلور ملز سرکاری قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر اوپن مارکیٹ سے گندم خرید رہی ہیں۔ بہت سی ملیں پوری صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کر رہی ہیں جس کی وجہ سے آٹے کی قلت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جون سے لے کر اب تک اشیائے خوردونوش کی مہنگائی اوسطاً 31 فیصد کے قریب ہے۔
اس وقت جب زیادہ تر متوسط طبقے کے گھرانے زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں جو الزامات ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں قابل مزحمت ہے ۔ مہنگائی کے ستائے عوام کو ریلیف دینے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں دونوں کی نااہل شامل ہے۔ جہاں وفاقی حکومت کو بحران کا اندازہ لگانے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، وہیں صوبوں کو اپنے دائرہ اختیار میں منافع خوری پر قابو پانے کے لیے بروقت انتظامی اقدامات کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جانا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos