Premium Content

Add

عوام کی جیت

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم

چوہدری یاور اپنے علاقے کا ایم پی اے تھا اور پچھلے 15 سال سے اس علاقے کی نمائندگی کر رہا تھا۔ سیاست اس کو وراثت میں ملی تھی۔ اس سے پہلے اس کے والد اور دادا بھی اس علاقے کی نمائندگی کر چکے تھے۔ وہ علاقے کا با اثر زمیندار بھی تھا اور اس کو اپنی برداری کی اک کثیر تعداد کی حمایت حاصل تھی۔ بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا۔ چوہدری یاور نے اس مرتبہ اپنے بیٹے چوہدری جاوید کو بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے طور پر حلقہ میں پیش کیا۔

سلیم احمد جو کہ کچھ عرصہ قبل ہی اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے گاؤں واپس آیا تھا ایک پرجوش نوجوان تھا اور اپنے علاقے اور غریب عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لئے اس نے این جی او بھی جوائن کر رکھی تھی۔ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنے حق کی آواز اٹھانے کی تلقین کر رہا تھا۔ چوہدری یاور کو یہ بات بڑی ناگوار گزری تھی۔ اس نے سلیم احمد کے والد چاچا رنگو جو کہ گاؤں کا حجام تھا کو بلایا اور تلقین کی کہ اپنے بیٹے کو اس کام سے باز رکھے۔

یاور نے بڑے تذلیل کرتے ہوئے رنگو کو کہا اب تم کمی ہمیں بتاؤں گے کیا کرنا ہے۔ دفع ہو جاؤ اور اس کو سمجھاؤ ورنہ نتائج کے ذمہ دار تم اور تمہارا بیٹا ہو گا۔

چاچا رنگو خوف اور ڈر میں گرا ہوا گھر پہنچا اور سلیم پتر کا انتظار کرنے لگا۔ شام کو جب سلیم گھر پہنچا تو اپنے والد کو بے چین اور پریشان پایا۔ اس نے والد سے پوچھا بابا کیا ہوا آپ کیوں پریشان ہیں۔

والد نے اپنی چوہدری یاور سے ملاقات کی روداد سنا دی۔ سلیم نے کہا ابا تو پریشان نہ ہو میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان جاگیرداروں سے جان چھڑا لیں۔ رنگو بیٹے کی باتیں سن کر مزید پریشان ہو گیا۔ اس کو معلوم تھا چوہدری یاور کسی کو معاف نہیں کرتا بہت جابر شخص ہے اور وہ کسی حد تک جا سکتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی جانتا تھا کہ وہ دھن کا کتنا پکا ہے اور اپنی بات سے پیچھے نہیں جائے گا۔ اس کو یاد آ رہا تھا جب سلیم احمد میٹرک کے بعد شہر تعلیم حاصل کرنے جا رہا تھا تو تمام گاؤں والوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ چوہدری یاور نے تو پیغام بھی بیجا تھا کہ کوئی ضرورت نہیں اپنا کام سکھاؤ۔ لیکن سلیم احمد نے ضد کر کے تعلیم مکمل کی تھی۔

الیکشن کی درخواستوں کا وقت قریب آیا تو سلیم احمد نے چوہدری جاوید کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ رنگو نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی ”کہ کدھی کمی نے وی الیکشن لڑیا اے تو چوہدریاں دا کم اے“ ۔ لیکن سلیم احمد نے سمجھایا کہ یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ الیکشن صرف چوہدری لڑ سکتے ہیں اور غریب نائی کا بیٹا نہیں لڑ سکتا۔ چچا رنگو بہت پریشان تھا اس نے بیٹے کو باز رہنے کے لئے کہا اور اسے سمجھایا کہ چوہدری یاور کو پتا چلا تو کس حد تک جا سکتا ہے۔ سلیم نے جواب دیا ابا میں جانتا ہوں زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا میری جان چلی جائے گی لیکن کسی نہ کسی کو تو یہ قدم اٹھانا ہو گا ظلم کب تک چلے گا۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

ادھر چوہدری یاور کو جب معلوم ہوا کہ اک کمی کا پتر اس کے بیٹے کے خلاف الیکشن کی درخواست دینے لگا ہے تو غصہ سے آگ بگولہ ہو گیا۔ کمی کی یہ جرات کہ چوہدری یاور کے بیٹے کے خلاف الیکشن لڑے۔ میں تو اس کی تعلیم کے خلاف تھا مگر چوہدری جاوید تیرے کہنے پر اجازت دے دی تھی اور آج تیرے خلاف ہو گیا۔ چوہدری یاور نے اپنے منشی کو بلایا اور کہا کہ تھانے دار کو فوراً بلائے۔

تھانہ دار چوہدری یاور سے ملنے آیا اور آتے ہی چوہدری یاور کی خوشامد کرنے لگا چوہدری صاحب نے مجھے یاد کیا خیر ہے۔ کیا حکم ہے جناب کس کو سبق سکھانا ہے میرے آقا۔ چوہدری یاور نے اکڑ کر جواب دیا تمہیں میں نے اس لیے لگوایا ہے کہ تم میرے دشمن پیدا کرو۔ مائی باپ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی۔ جناب حکم کریں کس کی جرات ہوئی آپ سے دشمنی لے جناب۔ چوہدری یاور نے سلیم کے بارے میں تھانے دار کو بتایا اور کہا ذرا اس کو اپنے طریقے سے سمجھاؤ اور اگر نہ سمجھے تو ختم کرو اس کا قصہ اور اب مجھے دوبارہ نہ کہنا پڑے۔ تھانہ دار اٹھا اور کہا جناب کے حکم کی تعمیل ہو گی۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں غلام سب سنبھال لے گا۔

تھانہ دار سپاہی کو تھانے سے روانہ کرتا ہے اور کہتا ہے سلیم احمد کو تھانے لے کر آئے اس کے خلاف درخواست آئی ہے۔ سپاہی سلیم کے گھر پہنچتا ہے اور اس کو تھانہ دار کا پیغام دیتا ہے سلیم سپاہی کے ساتھ چل پڑتا ہے۔ رنگو پریشان ہو کر سلیم کی طرف دیکھتا ہے۔ سلیم کہتا ہے ابا فکر نہ کر کچھ نہیں ہوتا مگر رنگو کو چین نہیں آتا اسے آنے والا وقت صاف دکھائی دے رہا تھا مگر سلیم مطمئن تھا۔

سلیم احمد تھانے پہنچتا ہے اور تھانے دار سے کہتا ہے اس کے خلاف جو درخواست ہے وہ دکھائے اور کس نے درخواست دی ہے۔ تھانہ دار کہتا ہے اتنی جلدی کیا ہے ابھی بتاتا ہوں۔ سپاہیوں کو بلا کر کہتا ہے لمبا کرو اس کمی کو یہ بہت سیانا ہو گیا ہے۔ شہر سے تعلیم لے کر آیا ہے۔ چھتر پریڈ کرو اس کی چوہدری یاور کے بیٹے کے خلاف الیکشن لڑے گا۔ سپاہی مار مار کر سلیم کو بے حال کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ الیکشن لڑنے سے انکار نہیں کرتا۔ تھانہ دار ساری صورتحال سے چوہدری کو آگاہ کرتا ہے۔

چوہدری یاور کہتا ہے ابھی اس کو کچھ دن غائب رکھو۔ درخواست کی آخری تاریخ تین دن بعد ہے پھر اس کا کچھ سوچتے ہیں۔ ٹھیک چوہدری صاحب جو آپ کا حکم، تھانہ دار سلیم احمد کو تھانے سے دور ایک ڈیرے پر لے جا کر بند کر دیتا ہے تا کہ کسی شکایت کی صورت میں پھنس نہ جائے۔

تین دن گزر جاتے ہیں۔ چوہدری جاوید کی درخواست جمع ہو جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی درخواست نہیں جمع کراتا۔ چوہدری یاور اس خوشی میں اپنی حویلی پر دعوت رکھتا ہے۔ رنگو بھی وہاں پہنچ جاتا ہے وہ چوہدری یاور کے پاؤں پر گر کر معافی مانگتا ہے اور اپنے بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگتا ہے اور وعدہ کرتا ہے آئندہ انہیں سلیم احمد گاؤں میں نظر نہیں آئے گا۔

چوہدری یاور اس شرط پر کہ اگر وہ سلیم احمد کو لے کر شہر ہمیشہ کے لئے چلا جائے تو اس کی جان بخش دے گا۔ چوہدری یاور رنگو کو سلیم احمد سے ملاقات کی اجازت دے دیتا ہے۔ رنگو سلیم احمد سے ملاقات کرتا ہے اور منت کرتا ہے بیٹا کوئی بھی تمہارا ساتھ نہیں دے گا۔ جن کی خاطر تم اپنی زندگی داؤ پر لگا رہے ہو۔ جب رنگو اور سلیم احمد شہر ہجرت کر رہے ہوتے ہیں اس وقت چوہدری جاوید گاؤں میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے۔ تم لوگوں کو مبارک ہو یہ جیت تمہاری جیت ہے آج تمہاری فتح کا دن ہے۔ اس بات پر خوب تالیاں بجتی ہیں اور سلیم احمد سوچ رہا ہوتا کہ ان لوگوں کو کوئی نہیں سمجھا سکتا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1