آئینہ خانہ میں

جب بھی کوئی خاکوں کی کتاب آتی ہے تو دل اس کی طرف لپک جاتا ہے اور میرے اندر سے آواز آتی ہے کہ کلیم کتاب خریدو اور پڑھو۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اکثر میں کتاب خرید لاتا ہوں اور بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا جب ہم نے سنا اصغر ندیم سید کی کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں“ چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ میرے نزدیک خاکہ وہ منظر ہے جو آپ کسی کھڑکی کی درز میں سے جھانک کر دیکھتے ہیں اور اس کو بیان کر دیتے ہیں اس طرح ایک شخص کی قلمی تصویر قاری کے ذہن میں بن جاتی ہے۔

خاکہ کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہوتا کہ کسی شخص کی پوری زندگی کا احاطہ کیا جائے اور اس شخص کی زندگی کو بیان کیا جائے۔ خاکہ لکھتے وقت یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ واقعات کے درمیان خاکہ نگار کہیں گوشے میں ٹھہرے اور جس کا خاکہ لکھا جا رہا ہے وہ مرکزی جگہ سنبھال لے۔ لیکن لگتا ہے اصغر ندیم سید نے خاکہ لکھنے کی عمومی تکنیک سے انحراف کرتے ہوئے خود کو مرکزیت دے دی ہے اور پندرہ آئینے اپنے اردگرد لگائے ہیں جن کے ذریعے اپنا خاکہ یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں اپنی زندگی قارئین کے سامنے پیش کر دی ہے۔

پندرہ خاکوں میں تیرہ خاکے معروف لوگوں کے ہیں جب کہ دو خاکے غیر معروف لوگوں کے ہیں ’جن میں ایک آپ کے بھائی کا خاکہ ہے جبکہ دوسرا فرخ درانی کا ہے۔ فرخ درانی کے خاکہ میں بھی آپ نے کئی خاکہ لکھے ہیں لیکن پھر بھی فرخ درانی کا عکس قاری کے ذہن میں ضرور بن جاتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں“فرخ درانی چھوٹے قد کے فربہ جسامت کے حامل تھے لیکن کپڑے چست پہنتے تھے۔ اس لیے جب وہ ویسپا سکوٹر پر بیٹھے ہوتے تو فٹ بال لگتے”۔

اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے فرخ درانی کیسے دکھتے ہوں گے آگے لکھتے ہیں۔ فرخ درانی نے الیاس چاند پر دست شفقت رکھا تو فرخ درانی پر ڈیرہ غازی خان کی وجہ سے تہمت افواہ کی شکل میں پھیلائی گئی کہ درانی صاحب ذوق ایرانی کے دبستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آگے لکھتے ہیں۔

وہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں سامنے دیوار پر ٹکا کے بے تھکان بولتے جاتے تھے۔

تیرہ مشہور شخصیات میں نیاز احمد، گوپی چند نارنگ، کشور ناہید، زاہد ڈار، شمیم حنفی، احمد فراز ظہیر کاشمیری، عبداللہ حسین، منیر نیازی، اے حمید، حبیب جالب، نئیر مسعود اور مسعود اشعر کے خاکے شامل ہیں۔

پھرتا ہے فلک برسوں ”دراصل غلام اصغر شاہ“ کی کہانی ہے کہ وہ کیسے اصغر ندیم سید بنا۔ بقول مصنف اس کا جنم ملتان میں ہوا وہ پانچ بہن بھائی ہیں جس میں اس کا نمبر پہلا ہے یعنی کہ وہ سب سے بڑا ہے اس لیے اپنی والدہ کی مدد بھی کرتا رہا ہے۔ اس کا بچپن ملتان کے نواحی علاقے سورج میانی میں گزرا جہاں وہ اپنے والدین کے ساتھ جعفر خان خاکوانی کی پرانی حویلی میں رہتا تھا۔ مصنف کے بچپن کو سنوارنے کا کام ماسٹر محمد اقبال نے کیا جو پرائمری سکول کے استاد تھے اور آزادی کے وقت رہتک سے ہجرت کر کے پاکستان ملتان تشریف لے آئے تھے رہتک کے لوگوں کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں۔

ان کا آنا ملتان کی سب سے بڑی خوش قسمتی ثابت ہوئی کہ انہوں نے ملتان کے مقامی باشندوں کو نہ صرف تعلیم دی، تجارت سکھائی‘ نئی سے نئی کوزین اور پکوان سکھائے اور شاندار گالیاں سکھائیں۔

اصغر ندیم سید اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ 1965 کی جنگ میں جب ان میں رگ تخلیق پھڑکی اور شہرت کی خواہش نے سر اٹھایا تو انہوں نے اپنی نظم اپنے کزن کے ذریعے امروز کے دفتر میں بھجوائی جن کو بے وزن کہہ کر رد کر دی گئی لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری ’ایم اے اردو کیا اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اردو کے لیکچرار بھرتی ہو گئے دوسری طرف اردو اکادمی ملتان میں شرکت کرتے اور اس کے جنرل سیکرٹری بن بیٹھے اس طرح آپ کو امروز میں ہفتہ وار کالم محفلیں لکھنے کا موقع ملا۔

اس طرح آپ کا ادبی سفر شروع ہوا کیونکہ آپ ”روزنامہ امروز“ سے جڑے ہوئے تھے تو اس پاداش میں ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ملتان سے شکر گڑھ تبادلہ کر دیا۔ اب آپ کی سرگرمیوں کا مرکز لاہور ٹھہرا اور آپ پاک ٹی ہاؤس میں آنا جانا شروع ہوئے۔ ٹی ہاؤس کے علاوہ آپ کا ٹھکانہ کشور ناہید کا گھر تھا۔ جہاں آپ کی ملاقات اردو ادب کے تمام بڑے لوگوں سے ہوئی۔ یہیں آپ کا تعلق گوپی چند نارنگ سے بنا، شمیم حنفی سے بنا، گوچی چند نارنگ نے آپ کو پوری دنیا کی سیر کرائی۔ ہر کانفرنس میں بلایا۔ کیونکہ گوچی چند نارنگ کا تعلق بھی لیہ سے تھا۔ اور آپ کا ملتان سے تو آپ لوگ آپس میں سرائیکی بولا کرتے تھے۔ شمیم حنفی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے آج تک آپ کی کسی تخلیق پر نہ بات کی نہ لکھا۔ اس کی وجہ آپ بیان کرتے ہیں کہ وہ آپ کو بڑا ادیب نہیں بلکہ دوست اور کامیاب انسان سمجھتے تھے۔

شاہ صاحب نے دو شادیاں کی۔ پہلی بیوی کا نام فرزانہ تھا جس کی بارات ٹی ہاؤس سے گئی تھی جو بھی اپنی نوعیت کا الگ واقعہ ہے پھر سن 2000 میں اچانک فرزانہ کی موت ہو گئی تو آپ نے دوسری شادی شیبا سے کی کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں بیویوں سے آپ کا تعلق بہترین اور دوستانہ رہا۔ پوری کتاب میں جابجا بوتل کا ذکر بھی ہے اس سے صاف ظاہر ہے مے نوشی ایک اہم چیز ہے اور اس کا آپ کی زندگی میں کافی عمل دخل ہے۔

پھرتا ہے فلک برسوں پڑھ کر آپ اردو ادب کی نہ صرف تاریخ سے واقف ہوسکتے ہیں بلکہ اس وقت سیاست میں کیا ہو رہا تھا اس کو بھی آپ جان سکتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos