اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور کے طاقت کے مراکز سے بہت دور بلوچستان، ایک وسیع علاقہ جہاں کے مکین مسلح علیحدگی پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان لڑائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگرچہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، لیکن عسکریت پسند پھر بھی سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں، اور صوبے میں حالات اب تک معمول کےمطابق نہ ہیں۔ ہر بار، فوج اعلان کرتی ہے کہ سرکردہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور ان کے حامیوں نےہتھیا ر ڈال دیے ہیں، اور وہ پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ تاہم گلزار امام بلوچ عرف شم بے جیسے لوگ جس کی حال ہی میں گرفتاری عمل میں آئی ہے حالات کو معمول پر آنے نہیں دیتے ہیں۔ بلاشبہ امام بلوچ کی گرفتاری سکیورٹی فورسز کی بڑی کامیابی ہے۔ کالعدم بلوچستان نیشنل آرمی کے سابق سربراہ کو منگل کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے ریاست اور بلوچ عسکریت پسندوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے پر آمادگی کا اعلان کیا۔ بظاہر، گلزار امام نے اپنے پہلے والے راستے کی بے راہ روی کو بھانپ لیا ہے، اور پرامن ذرائع سے بلوچستان کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنے کا عزم کیا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس سے قبل بھی کئی بلوچ جنگجو اسی انداز میں اپنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ پھر بھی سوال یہ ہے کہ اگر پچھلے کئی سالوں میں سینکڑوں مسلح افراد بندوق چھوڑ چکے ہیں تو بلوچ شورش کیوں جاری ہے؟ ایک وضاحت اس سلسلے میں غیر ملکی لوگوں کی شمولیت ہے، جسے گلزار امام نے اپنی میٹ دی پریس تقریب کے دوران بھی اٹھایا۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ شواہد بلوچستان میں شرپسند غیر ملکی قوتوں کی نشاندہی کرتے ہیں، لیکن صوبے کو متاثر کرنے والی بدحالی کی جڑیں گہری اور مقامی ہیں۔ بنیادی طور پر، بلوچستان کے بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ پسماندہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صوبہ کئی علاقوں میں باقی پاکستان سے کئی دہائیوں پیچھے ہے۔ اور اس قابل رحم حالت کی بنیادی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ علیحدگی پسندوں کے بادبانوں سے ہوا کے اخراج کے لیے بلوچستان کو قومی دھارے میں لانا ہوگا،تاکہ صوبے کی عوام ملک کی ترقی میں حصہ ڈالے۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب بلوچستان کے عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس اپنے صوبے کو درست سمت میں لے جانے کی حقیقی طاقت ہو اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوامی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ سیاسی اور سماجی اقتصادی مسائل کے فوجی حل سے بلوچستان میں امن نہیں آئے گا۔