بے رحم بھوک سنگدل حکمران

بھوک بڑی خوفناک ہوتی ہے یہ انسان کو انسانیت کی حدود  سے بھی باہر نکال دیتی ہے اور اسے ایسے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کے بارے میں وہ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ بھی نہیں سکتا۔

ایسے مہم جو افراد جو بے سرو سامانی کی حالت میں کسی مشکل میں پھنس گئے، جب ان میں سے چند بھوک کی اذیت سے دوچار ہو کر اپنی جان سے گزر گئے تو زندہ بچ جانے والوں نے بھوک کی اذیت ناک موت سے بچنے کے لئے اپنے ہی عزیز ساتھیوں کی لاشوں کو کاٹ کھایا، ان افراد  نے اپنی آپ بیتیوں میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ  ان کی یہ درندگی بھوک کی وجہ سے تھی جو انھیں آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل رہی تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ 1972ء میں ایک پائلٹ مارٹن ہارٹ ویل کے ساتھ پیش آیا جب اس کا جہاز شمال مغربی کینیڈا کے ایک علاقے میں گر گیا ، جہاز میں تین مسافر تھے جو جاں بحق ہو گئے، ایک مہینے کے بعد جب ریسکیو ٹیم انھیں تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچی تومارٹن زندہ تھا جو جہاز میں موجود سامان کے ختم ہونے پر مرنے والوں کا گوشت کھا کر خود کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لئے فروخت کردیا ۔

ریپبلک پالیسی اردو انگریزی میگزین خریدنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

بھوک و افلاس کی اسی خوفناکی کی وجہ سے دنیا کے تمام مذاہب میں بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے  تاکہ وہ کسی گھنائونے جرم میں مبتلا ہونے یا پھر انتہائی اقدام سے باز رہے ۔ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کا فرمان ہے’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اے عمرؓ قیامت کے روز تجھ سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘حضرت عمرؓ کا  یہ معمول تھا کہ وہ رات کو بھیس بدل کر شہرکا گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کے حال سے واقف ہو سکیں۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمران ہیں جنھیں عوام تو ایک طرف رہے اپنے پڑوسیوں تک کے حالات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں عوام مہنگائی ، بیروزگاری، ناانصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے بہت تنگ تھے اور آئے روز خود کشیوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دووقت کی روٹی حاصل کرنا کتنا مشکل ہو چکا ہے اس کا اندازہ فی سبیل اللہ چلنے والے دسترخوانوں اور لنگر خانوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے جہاں پر رش بڑھتا ہی جا رہا ہے ، اب وہاں صرف غریب یا مزدور طبقہ ہی نہیں سفید پوش افراد بھی لائن میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ بہت سی خواتین بچوں سمیت کھانے کے لئے وہاں پہنچی ہوتی ہیں۔ اگر یہ فی سبیل اللہ دسترخوان نہ ہوں تو خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروںافراد جو روزانہ یہاں سے کھانا حاصل کرتے ہیں کن حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔

دوسری طرف جب حکومت کی طرف سے عوام کی کھال اتارنے یعنی ٹیکسوں کے نفاذ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر ٹیکس نہ لگایا ہو، تاہم سرمایہ دار اپنے مخصوص ہتھکنڈوں کی وجہ سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انسان کے پیدا ہونے سے لے کر موت تک ہر فرد ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ جنرل سیلز ٹیکس، ٹال ٹیکس اور ایسے ہی دوسرے ٹیکس بظاہر سرمایہ دار ادا  کرتے  ہیں مگر ان کا اصل بوجھ عوام ہی پر پڑتا ہے، اسی طرح بجلی ، پانی اور گیس  کی قیمتوں میں آئے روز کیا جانے والا اضافہ بھی عام آدمی کے لئے سوہان روح ہے۔

جہاں یہ صورتحال ہو گی وہاں جرائم کی شرح میں لازمی اضافہ ہو گا، ناانصافی ہو گی ، ڈرگ ایڈکشن بڑھے گی، لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے، جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ اس دبائوکو برداشت نہیں کر پاتے جس کا نتیجہ خودکشی اور اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آئینی طور پر حکومت ہر شہری کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے ، حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا چاہئیں کہ ہر خاندان کی اتنی آمدن ہو کہ اس کا گزارہ ہو سکے، یا پھر غریبوں کے ریلیف کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں، انھیں اشیاء پر سبسڈی دینا ہو گی۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے غربت اور افلاس بھی بڑھی ہے ، حکومت کو غربت میں کمی کے لئے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے۔

ان حالات کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف غم وغصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے ، وہ لوگ جو غربت اور ناانصافی سے تنگ آ کر ہمت ہار جاتے ہیں وہ خود کشی کی راہ اپناتے ہیں باقی ماندہ یا تو برداشت کرتے ہیں یا پھرجرائم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تاہم ابھی تک عوام کے غم و غصہ کا رخ ملک کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی طرف نہیں ہوا ، اگر اسی نفرت نے حکومتی ایوانوں کا رخ کر لیا تو غضب ہو جائے گا ، حکمرانوں کو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دینے  کی بجائے عملاً سب ٹھیک کرنا ہو گا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos