بلڈ اور فلڈ

[post-views]
[post-views]


تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
ایک پاکستانی کی زندگی میں بلڈ اور فلڈ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ فقط پاکستان پر ہی کیا موقوف پوری دنیا میں بلڈ اور فلڈ کی بدولت زندگیاں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی۔انگریز بھی ذات پات کے قائل ہیں اگرچہ اب ان کا معاشرہ ترقی کی اعلی ترین منازل طے کرتا جا رہا ہے ۔دنیا بھر میں ابتدائی انسانی آبادیاں دریاؤں کے کنارے آباد کی گئیں ۔سیلاب پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں آتے ، دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی آتے ہیں ۔ ماضی کے مشرقی پاکستان میں تو سیلاب اکثر آتے تھے ۔بلڈ اور فلڈ میں چولی دامن کا ساتھ نہیں ہے ۔ جب فلڈ آتا ہے تو وہ پرواہ نہیں کرتا کہ کس میں شاہی خون ہے ، کس میں سیاہی خون ہے، کس میں نیلا خون ہے، کس میں پیلا خون ہے ۔ سائنس کے مطابق بنی نوع انسان کا خون سرخ بھی ہوتا ہے اور سفید بھی ، مثبت بھی ہوتا ہے ، منفی بھی ، اے بھی ہوتا ہے ، بی بھی، او بھی ہوتا ہے اور بہتا ہے تو جم بھی جاتا ہے ۔ جم جاتا ہے تو رنگ چوکھا لاتا ہے ۔ ایک محاورے کے مطابق خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے لیکن جب سیلاب آتا ہے تو بعض اوقات خون کا گاڑھا ہونا بھی کسی کام نہیں آتا ۔ خون سے زیادہ
کردار کام آتا ہے ۔ اسلام کے مطابق خون کی اہمیت فقط شناخت کی حد تک ہے ۔ ہمارے ہاں خون اور ذات کو ایک ہی لفظ سمجھا جاتا ہے ۔ایک شاعر نے کہا تھا کہ عشق نہ پچھے ذات ۔ محترمہ دیبو کائناتی اپنے ایک مزاحیہ مضمون میں لکھتی ہیں :-” نئی نسل سمجھتی ہے کہ ایک شہر جس کی آبادی لاکھوں میں ہے ، وہاں عشق نامی ایک فقیر بھی رہتا ہے ۔ ایک وہی ہے جو کسی کی ذات نہیں پوچھتا ۔ باقی سب نہ صرف اک دوسرے کی ذات پوچھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ذات کے بارے میں وہ وہ بات کرتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے ۔ ہمارے لوگ ذات پات پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں اور پانی پت کے درجے کی کتنی ہی لڑائیاں ذات پات کو لے کر آج بھی ہمارے ہاں لڑی جا رہی ہیں “۔ اسلام مکمل دین ہے ۔ اسلام کسی بھی علاقے کے کلچر کی نفی نہیں کرتا ۔ دنیا کے ہر کلچر کا احترام کرتا ہے لیکن اسلام ان سماجی روایات کا خاتمہ بھی کرتا ہے جو انسان کی عظمت کی نفی کرتی ہیں ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ذات پات کے نظام سے اکتائے ہی لوگ ہی نیا دین قبول کرتے ہیں ۔ یہودیت کا خاصہ ذات پات ہے ۔ ہندو مت کا خاصہ ذات پات ہے ، یہودی جوک در جوک عیسائی ہوئے ۔ ہندو قبائل کے قبائل مسلمان ہوئے ، وجہ ذات پات کے نظام کی قباحتیں تھیں ۔ اسلام نے ذات پات کے بت پاش پاش کر دیے ۔ عام انسان کو عزت بخشی ۔ قبول اسلام کے بعد اگر کسی کو رنگ و نسل یا ذات پات کی بنیاد پر حقیر سمجھا جاتا تو حکومت متکبر کو سزا دیتی تھی ۔ شیطان تکبر کی وجہ سے ہی مردود ٹھہرا ۔ اسلام کی بنیا د تقوی پر ہے ۔ تقوی کے علاوہ فضلیت کا کوئی بھی معیار اسلامی مزاج سے متصادم ہے ۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مسلمان کے لیے یہ گناہ ہی کافی ہے کہ وہ کسی دوسرے کو کسی بھی وجہ سے خود سے حقیر سمجھے ۔ صوفیا کرام کا عقیدہ ہے کہ مسلمان کا فقر ہی اس کا فخر ہوتا ہے ۔ اپنے تو اپنے ، اغیار بھی مسلمانوں کے کردار پر فخر کرتے رہے ہیں ۔ برصغیر میں اسلام عرب تجار اور صوفیائے کرام کے کردار کی بدولت پھیلا ۔ آج بھی ہماری عوام کی اکثریت کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی ۔ دنیا میں پاکستانی قوم خیرات اور صدقات کرنے کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت ائی ، ہمارے ہاں مدد کا سیلاب آیا ۔ ہمارے لوگ مصیبت کی گھڑی میں کسی بھی انسان کو بلا امتیاز رنگ و نسل ، خون اور مذہب اکیلا نہیں چھوڑتے ، مدد کرتے ہیں اور انسانیت کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ آج کل بھی وطن عزیز فلڈ کی زد میں ہے مگر دنیا کا ہر فلڈ ہماری مدد کی حد میں ہے ۔ ہمارے لوگ اپنےمصیبت میں گھرے بھائیوں کی مدد کے لیے دن رات ایک کر چکے ہیں ۔ خیرات اور صد قات کا سیلا ب آیا ہوا ہے ۔ لوگوں کا جذبہ چھایا ہوا ہے ، پرائمری سکول کے بچوں نے بھی ایک فنڈ بنایا ہوا ہے ، اپنا جیب خرچ تک نیک مقصد پر لگایا ہوا ہے۔ شاعر نے بجا فرمایا ہوا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ۔ ہماری قوم حیرت انگیز ہےاگرچہ ہمارا دشمن دورِ حاضر کا ظالم و سفاک ہے لیکن ہماری جذبے کی آگ زیادہ تیز ہے۔ ہمیں معرکہ حق درپیش رہتا ہے ، ہمارا ریکارڈ یہ کہتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں، اور ہم ہی سرخرو ہوں گے۔ قوم حقیقی طور پر سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے ، دشمن کے دل کا خار بن چکی ہے ۔ فلڈ کی آزمائش نے قوم کے جذبہ ایثار میں مزید نکھار پیدا کیا ہے ۔ ہمارے لوگ دل و جان سے اپنے بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ انشااللہ ہماری نئی نسل ہر طرح کی آزمائش میں سر خرو ہو گی ۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے ۔ آبادی کا ایک قبل ذکر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ ان نوجوانوں کا اپنی حکومت کے ساتھ مثالی ہے ۔ موجودہ آزمائش کی گھڑی میں حکومت نے ہم وطنوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ حکومت چوبیس گھنٹے ان کی ہر تکلیف میں ان کے ساتھ ہے ۔ بہترین حکومتی اقدامات کی بدولت کئی طرح کے خطرات کا تدارک کیا گیا ہے ۔ آسمانی آفت کے مقابلے میں انسان سے جو کچھ ہو سکتا ہے ، وہ کیا گیا ہے ۔ وزیر اعلی صاحبہ اور ان کی سیاسی ٹیم بھی مکمل طور پر متحرک نظر آئی ۔ وزیر اعلی کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چیف سیکر ٹری صاحب ، آئی جی صاحب ، جملہ سیکرٹری حضرات ، کمشنر صاحبان ، ڈپٹی کمشنر صاحب غرض یہ کہ جملہ سرکاری مشینری متحرک نظر آئی ۔ لوگوں نے اپنا مذہبی اور انسانی فریضہ سمجھ کر ہم وطنوں کی مدد کی ۔ ایک نوجوان افسر جنہیں انتہائی خطرناک بیماری لاحق تھی ، وہ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر ادائیگی فرض میں مصروف رہے ۔ انہوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ ہماری دعائیں اور نیک خواہشات ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں ۔ اسسٹنٹ کمشنر صاحب کا کردار ہمارے قومی مزاج کا غماز ہے ۔ فرقان احمد صاحب جیسے نوجوان ہمارے لیے قابل تقلید ہیں ۔ انہوں نے دیکھا کہ اہل وطن کو ان کی ضرورت ہے تو انہوں نے دیگر جملہ معاملات پس پشت ڈال دیے ۔ بھارت ، اسرائیل کوئی بھی دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ ہمارا ہر نوجوان چلتا پھرتا پاکستان ہے ۔ پاکستان ہمارا دل ہے، پاکستان ہماری جان ہے ، ہماری آن ہے ، شان ہے۔ یوم دفاع قریب ہے ۔ ہر مسلمان عمر بھر شیطان کی سازشوں سے اپنا دفاع کرتا رہتا ہے ۔ ہمارا ملک شیطان کے منہ پر تمانچہ ہے۔ہمارے اجداد نے اپنی جان و مال کی قربانی دے کر وطن اور اہل وطن کو سر خرو کیا ۔ہماری نئی نسل بھی اپنا کردار ادا کرنے میں کسی کوتاہی کی مرتکب نہیں ہو گی ، انشااللہ ۔ ہمار ا بلڈ بھی پاکستان ہے اور ہمارے لیے رنگ و نور کا فلڈ بھی پاکستان ہے ۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos