کیا عمران خان کے بیٹے پی ٹی آئی کا نیا سیاسی باب بن سکتے ہیں؟

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

پاکستان کی سیاست ایک بار پھر ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اس وقت جیل میں قید ہیں، اور ان کی رہائی کے لیے قانونی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوامی احتجاج اور سیاسی دباؤ بھی جاری ہے۔ ایسے حالات میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ عمران خان کے بیٹے، قاسم اور سلیمان خان، پاکستان واپس آ کر اپنے والد کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک میں عملی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک ذاتی معاملہ لگتا ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات بہت گہرے اور دور رس ہو سکتے ہیں۔

قانونی طور پر عمران خان کی رہائی عدالتوں کا معاملہ ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے معاملات محض عدالتی نوعیت کے نہیں ہوتے۔ ریاستی طاقت، بیانیہ سازی اور عوامی دباؤ بھی اس عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ریاستی مزاحمت اور رکاوٹوں کے باوجود اپنی عوامی حمایت کو ثابت کیا۔ مگر پارٹی کو درپیش اصل چیلنج قانونی یا سیاسی سے زیادہ انتظامی اور ادارہ جاتی نوعیت کا ہے۔

ریاستی اداروں نے پی ٹی آئی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اختیار کی ہے۔ عوامی مقبولیت کے باوجود جماعت کو انتخابی عمل اور حکمرانی سے دور رکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں عمران خان کے بیٹوں کی ممکنہ سیاست میں شمولیت محض خاندانی فیصلہ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے تنظیمی ڈھانچے میں ایک نئی حکمت عملی کی شروعات بھی ہو سکتی ہے۔

اگرچہ مورثی سیاست کو اصولی طور پر جمہوری اقدار کے خلاف سمجھا جاتا ہے، مگر جنوبی ایشیا میں خاندانی سیاست ایک مضبوط روایت بن چکی ہے۔ شریف خاندان، بھٹو خاندان، زرداری اور مریم نواز جیسے نام اس روایت کا حصہ ہیں۔ اگر قاسم اور سلیمان سیاست میں آتے ہیں، تو وہ اسی تناظر میں دیکھے جائیں گے، اور پارٹی میں قیادت کے خلا کو پُر کر سکتے ہیں۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

پی ٹی آئی کے کارکنان عمران خان کو صرف ایک لیڈر نہیں بلکہ ایک تحریک سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اگر قاسم اور سلیمان خان اس تحریک کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں صرف ظاہری نمائندگی پر اکتفا نہیں کرنا ہو گا، بلکہ نظریاتی وضاحت، تنظیمی مہارت، اور نوجوان طبقے سے حقیقی رابطہ قائم کرنا ہو گا۔

قیادت کی نسلی منتقلی اگر دانشمندی سے کی جائے تو یہ پی ٹی آئی کے لیے طویل المدتی استحکام لا سکتی ہے۔ موجودہ قیادت عدالتی مسائل اور ریاستی دباؤ کا شکار ہے اور پارٹی کو یکجا رکھنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں قاسم یا سلیمان کی آمد ایک نیا مرکز بن سکتی ہے—بشرطیکہ وہ خود کو محض عمران خان کے بیٹے نہیں بلکہ ایک وژنری رہنما کے طور پر منوائیں۔

یہ سب کچھ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ریاستی ادارے ان کی سیاسی شمولیت پر کیا ردِعمل دیتے ہیں۔ اگر انہیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جاتا ہے تو یہ اسٹیب کے رویے میں ممکنہ تبدیلی کا اشارہ ہو گا۔ بصورت دیگر اگر ان کی آمد پر پابندیاں لگتی ہیں یا قانونی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ نظام اب بھی مفاہمت کے لیے تیار نہیں۔

ان کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہو گا کہ وہ خاندانی نام کی بنیاد پر سیاست نہ کریں بلکہ اپنے کردار، وژن اور سنجیدگی سے خود کو ثابت کریں۔ جنوبی ایشیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں دوسری نسل کے رہنما عوام کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔ قاسم اور سلیمان کو چاہیے کہ وہ عوام سے جڑنے، گہرائی سے مطالعہ کرنے، اور ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ بنانے کی سنجیدہ کوشش کریں۔

اگر وہ ایسا کر سکے تو وہ پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کو ایک وسیع تر سیاسی تحریک میں بدل سکتے ہیں۔ ان کی واپسی پارٹی میں نئی جان ڈال سکتی ہے، نوجوانوں سے رابطہ بحال کر سکتی ہے، اور عمران خان کی غیر موجودگی میں کارکنان کے لیے ایک علامتی مرکز بن سکتی ہے۔ تاہم یہ سب تبھی ممکن ہے جب ان کی شرکت محض علامتی نہ ہو بلکہ حقیقی اور نظریاتی بنیادوں پر استوار ہو۔

بالآخر، اگر قاسم اور سلیمان خان سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو یہ پی ٹی آئی کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی نسل کی قیادت ہو سکتی ہے جو عمران خان کی وراثت کو ایک نئے وژن کے ساتھ آگے لے کر چلے۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے جب وہ اس لمحے کی سنجیدگی کو سمجھیں اور اپنی سیاسی موجودگی کو بامعنی انداز میں پیش کریں۔

ایسے وقت میں جب پاکستان میں سیاسی اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہو رہا ہے، اور جمہوری فضا تنگ ہوتی جا رہی ہے، تو ایک تازہ، قابل، اور با اصول قیادت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر قاسم اور سلیمان یہ چیلنج قبول کر لیتے ہیں، تو وہ پی ٹی آئی کو اس کے اگلے تعمیری مرحلے میں لے جا سکتے ہیں۔ بصورت دیگر، ان کی آمد ایک کھوئی ہوئی سیاسی موقع بن کر رہ جائے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos