Premium Content

چیئرمین پی سی بی کی تبدیلی

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: رمضان شیخ

پاکستان جیسے ملک میں لفظ ’تبدیلی‘ بالکل اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ تبدیلی کا عمل حکومتی سطح پر ہو یا پھر ادارہ جاتی سطح پر، اس کی تکمیل آسان نہیں۔ شاید یہ تیسری دنیا کے ملکوں کا مشترکہ المیہ ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی تبدیلی کے تصور سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ جیسے کہا جاتا ہے کہ ’ثبات تغیر کو حاصل ہے زمانے میں‘کے مصداق، تبدیلی یا تغیر ہی وہ چیز ہے جس کو اس کائنات میں مستقل مزاجی حاصل ہے۔ مظاہر فطرت میں یہ تبدیلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہر چیز سفر میں دکھائی دیتی ہے۔

کچھ ایسی ہی تبدیلی پاکستان کرکٹ بورڈ میں دکھائی دی  جب رات گئے نجم سیٹھی نے ٹویٹ کیا کہ اب وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن چکے ہیں۔ اور رمیز راجہ اب گھر جاسکتے ہیں۔ رمیز راجہ نے نہ صرف اس اقدام بلکہ ٹویٹ کا بھی بہت بُرا منایا اور برملا کہا کہ چلتے سیزن میں یوں کسی کو گھر بھیجنا اور پھر رات کے دوبجے ٹویٹ کرنا انتہائی غیر مناسب بات ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/pakistan-cricket-board-auqraba-parvari/

          تاریخ اور روایت یہی بتاتی ہے کہ پاکستان میں حکومتی تبدیلی مختلف اداروں کے سربراہان کی تبدیلی کا باعث بھی بنتی ہے۔ عمران سرکار کی چھٹی کے بعد چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کی تبدیلی کا عمل بھی ٹھہر گیا تھا۔ مگر یہ ہونا ہی تھا۔ نجم سیٹھی جن کو خود نئی سرکار نے چلتا کیا تھا۔ وہ ٹھنڈے پیٹوں یہ کیسے برداشت کرلیتے کہ اُن کی نمائندہ حکومت میں رمیز راجہ کو ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ برقرار کھا جائے۔ یہ تو رمیز راجہ خوش قسمت رہے کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی سات، آٹھ ماہ نکال گئے، وگرنہ نجم سیٹھی تو پہلے دن سے ہی پیچ و خم کھارہے تھے اور وقتاً فوقتاً وزیراعظم شہباز شریف سے اس سلسلے میں ملتے رہتے تھے۔

          نجم سیٹھی اور رمیز راجہ بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ، بظاہر پاکستان کرکٹ کی بہتری کے خواں ہیں مگر کرکٹ کی بہتری کے حوالے سے دونوں کی طرف سے اُٹھائے گئے اقدامات ایک دوسرے کی ضد دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً رمیز راجہ نے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو مکمل طورپر ختم کردیا اگرچہ انہوں نے ایسا عمران خان کے کہنے پر کیا جو پاکستان میں آسٹریلین طرز کے کرکٹ سٹرکچر کو پروان چڑھانا چاہتے تھے۔ قطع نظر کے پاکستان کے معروضی حالات اس کے متحمل ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ جبکہ نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ واپسی کے بعد اپنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کی بحالی کا اشارہ دیا۔

          رمیز راجہ نے میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے لیے زیروٹالرنس پالیسی اپنائے رکھی جبکہ نجم سیٹھی اس حوالے سے نرم گوشتہ رکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر کسی کھلاڑی نے میچ فکسنگ کا اعتراف کرلیا ہے۔ معافی بھی مانگ لی ہے تو پھر اُسے دوسرا موقع ملنا چاہیے۔ رمیز راجہ نوجوان کھلاڑیوں کی پاکستان کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے خواہاں رہے اور تجربہ کار مگر عمر رسیدہ کھلاڑیوں کو نظر انداز کرتے دکھائی دیے، شعیب ملک اور محمد حفیظ کی مثال سب کے سامنے ہے کہ عوامی دباؤ کے باوجود انہیں ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے زیر غور نہیں لایا گیا۔ جبکہ نجم سیٹھی اس کے برعکس سوچتے ہیں وہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ تجربہ کار پلیئرز کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ نجم سیٹھی کی بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ واپسی کے ساتھ سینئر پلیئرز کی واپسی کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال سابق کپتان سرفراز احمد اور میر حمزہ کی کراچی ٹیسٹ میں واپسی ہے۔

          رمیز راجہ نے انڈین ٹیم کے پاکستان میں شیڈول ایشیاء کرکٹ کپ نہ کھیلنے کی صورت میں بھارت میں شیڈول پچاس اوورز کے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کی دھمکی دی مگر نجم سیٹھی نے آتے ہی یہ بیان دیا کہ پاکستان ایسی سوچ نہیں رکھتا۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/pcb-k-maumlat-chalany-k-liye-sethi-ki-sarbarahi-ma-committee/

          مگر اس ساری تفاوت کے باوجود، دونوں چیئرمین پاکستان کرکٹ کی فلاح اور بہتری چاہتے تھے۔ قطع نظر کہ دونوں کی اپروچ اور کام کاطریقہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔ مثلاً دونوں نے پی ایس ایل کو برانڈ بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ایک نے پی ایس ایل کو پودا لگایا تو دوسرا پی ایس ایل کو امارات سے پاکستان لے کر آیا۔ ایک چیئرمین شپ میں پاکستان ٹیسٹ نمبرون بنا تو دوسرے کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا۔

غرض سوچ اور اپروچ کے فرق کے باوجود اگر کوئی کام کرنا چاہے اور آگے بڑھنا چاہے تو کوئی اُسے روک نہیں سکتا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos