گزشتہ جمعے کو سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک پرائیویٹ ممبر بل منظور کیا، جس کے تحت سینیٹ کے چیئرمین چاہے وہ خدمات انجام دے رہے ہوں یا ریٹائرڈہوں ، پاکستان کے سب سے مراعات یافتہ افراد میں سے ایک ہوں گے۔ اگرچہ اس بل کے پاس ہونے سے پہلے اس کی بہت کم کوریج تھی، لیکن اب چونکہ یہ عیاں ہو گیا ہے تو اس پر متعدد حلقوں کی طرف سے بہت تنقیدہو رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق چیئرمین سینیٹ (تنخواہ، الاؤنس اور مراعات) ایکٹ 2023 کی تمام مرکزی سیاسی جماعتوں نے حمایت کی تھی اور اب قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر کے پاس جائے گا۔ یہ ایکٹ نافذ ہونے کے بعد، ماضی، حال اور مستقبل کے تمام سینیٹ چیئرمینوں کے لیے پرکشش ہو گا۔ اس ایکٹ کے تحت وہ چیئرمین خواہ حاضر ہو یا ریٹائر ہو کسی بھی جگہ سفر کرنے کے لیےسرکاری خرچے پر کمرشل چارٹر طیارہ استعمال کرسکے گا، اس کے علاوہ سابق چیئرمینوں کو کم از کم دس اہلکاروں کی سکیورٹی، ان کے گھریلو عملے کے ساتھ ساتھ خاندان کے افراد کے حکومت کے زیر اہتمام سفر کے انتظامات بھی شامل ہیں۔
Don’t forget to Subscribe our Channel & Press Bell Icon.
یقیناً دیگر غیر ضروری مراعات بھی ہیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے ایک غلط پیغام جاتا ہے ۔ اس معاشی بحران کے نتیجے میں لوگ دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پا رہے جبکہ اس طرح کی مراعات مزید مشکل سے دوچار کریں گی ۔ ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اب اس بل کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اس بل کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے۔ پارٹی کے دیگر سینئر ارکان نے بھی کہا ہے کہ وہ ملک کو درپیش معاشی حقائق کے پیش نظر بل کی حمایت نہیں کر سکتے۔
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
سینیٹ کے چیئرمین کا بل کا دفاع کرتے ہوئے اور یہ دلیل دینا بدقسمتی کی بات ہے کہ اس سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا، اور یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت حکمران اشرافیہ کے بعض ارکان کس حد تک صورتحال سے ناواقف ہیں۔ بل میں غیر منصفانہ مراعات کی تجویز پیش کی گئی ہے جو قابل قبول نہیں ہیں، اور اب اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اس پر بحث اور ترمیم کیے بغیر اسے منظور کر لیا جائے۔ امید یہ ہے کہ طاقت کے حلقوں میں ایک ایسا بل سامنے لانے کے لیے بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے جو ملک کی زمینی حقیقت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہو۔