ہندوستان نے حال ہی میں چندریان-3 مشن کو لانچ کیا ہے۔ چندریان-3 کو بھیجنا بذات خود ایک کامیابی ہے۔ اس مشن میں بھارت کا مصنوعی سیارہ چاند کی سطح پر لینڈ کرے گا۔ امریکہ، چائنہ اور روس کے بعد بھارت اب سپیس ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں اپنا لوہا منوانے جا رہا ہے۔ کمیونی کیشن میں خود انحصاری ، قدرتی وسائل کے انتظام کے لیے سیارہ پر مبنی ریموٹ پروگرام اور خلا پر مبنی تصویروں کا استعمال کرتے ہوئے ماحول کی نگرانی۔ خلا پر مبنی سمت جانچنے والا سسٹم، سماجی ترقی کے لیے خلا پر مبنی ایپلی کیشنز، خلائی سائنس اور سیاروں کی تلاش میں تحقیق اور ترقی، عالمی خلائی منڈی میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے نجی فرموں کو فروغ دینا اور ان کی اجازت دینا،بیروزگاری سے نجات، خلائی سائنس کی تحقیق اور سیاروں کی تلاش کو آگے بڑھاتے ہوے، قومی ترقی کے لیے خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال، برقرار اور بڑھانا۔ ریونیو جنریشن اور ملکی سلامتی اب بھارت کا ہدف ہے۔
فی الحال بھارت ٹیلی کمیونی کیشن کے متعلقہ ڈیٹا کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ چندریان-3 کی کامیابی کے بعد بھارت کا دوسرے ممالک پر یہ انحصار ختم ہو جائے گا۔ سپیس ٹیکنالوجی پانچویں جنریشن وار، ہائبرڈ وار فیئر، پروپیگنڈا، اور G-5 نیٹ ورک کو کام کرنے کے قابل بناتی ہے- ملکی سلامتی کے لیے سپیس ٹیکنالوجی کا حصول نا گزیر ہے- پاکستان ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔
پاکستان میں سپیس کو تسخیر کرنے کے لیے 1961 میں سپارکو کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت دنیا میں پاکستان تیسرا ملک تھا جس میں سپیس ٹیکنالوجی پر کام کا سٹارٹ ہوا – اس وقت دنیا کی دو بڑی طاقتیں کولڈ وار میں مصروف تھیں جبکہ پاکستان کائنات کو تسخیر کرنے کا سوچ رہا تھا- آئیے اب دیکھتے ہیں کیا وجوہات ہیں کہ پاکستان سپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں بالکل پیچھے رہ گیا ہے۔
Please subscribe our channel & press Bell Icon.
.
ڈاکٹر عبدالسلام نے، 1992 میں، سپارکو کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔ جن کی ان تھک محنت کی وجہ سے، پاکستان رہبر -1 بھیجنے کے قابل ہوا ۔ پاکستان نے مخصوص آئیڈیالوجی کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالسلام کو قبول نہ کیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان سپیس ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں پیچھے رہ گیا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پروگرام ہماری نوجوان نسل کے لیے ایک کشف بن سکتا تھا۔حکومتی سطح پر عدم دلچسپی ،بحیثیت سربراہ ریٹائرڈ افسران کی تعیناتی، سائنس میں عدم دلچسپی، فنڈز کی عدم دستیابی اور متروک نصاب، چند ایک بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارہ ناکام ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سپیس ٹیکنالوجی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پاکستان نے صرف اس پر 25 ملین ڈالر کا بجٹ مختص کر رکھا ہے جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک کا یہی بجٹ تقریبا دو ہزار ملین ڈالر ہے۔ سائنس کی منطق سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے، نہ ہی ہم اپنے بچوں کو سائنس پڑھانا چاہتے ہیں۔ ارتھوڈوکس آئیڈیالوجی اور توہم پرست کہانیوں نے ہم کو گھیر رکھا ہے۔ اگر کوئی بھی منطق ہماری اس آئیڈیالوجی کے خلاف ہے تو اس منطق کو پڑھنا تو دور کی بات ہم اس کے بارے میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ سب ہمارے مذہبی عقائد کے برعکس ہے۔ اسلام ہمیشہ غور و فکر کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ہمارا ماضی بھی بہت شاندار ہے۔ البیرونی، ال کیمسٹ، الخوارزمی، عمر خیام اور ابن الہاشم ہمارے چمکتے ستارے تھے۔
پاکستان ایک فلاحی ریاست کی بجائے ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لوگوں سے حق حکمرانی چھین کر، ریاست کے کچھ با اثر گروہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔تمام ریاستی وسائل سائنس اور ٹیکنالوجی کی بجائے جغرافیائی سرحدوں پر لگا دیے جاتے ہیں۔ اب پاکستان کو ترقی کا نظریہ اپنا نہ ہوگا۔ اب ماضی سے سیکھیں۔ 1970 میں کولڈ وار کا حصہ بننے، ضیاء الحق کی اسلاما ئزیشن،2001 میں امریکہ کی جنگ کا حصہ بننا جیسے ہی غلطیوں کو دوبارہ مت دہرایا جائے۔
مستقبل اب پانچویں جنریشن وار کا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے سائنس اور سپیس ٹیکنالوجی کا حصول نا گزیر ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ صرف جی ڈی پی کا2 فیصد ہے۔ جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ کیا اس بجٹ میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ہمارا تعلیمی نصاب قابل رحم ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ صرف شکاگو یونیورسٹی کے حصہ میں 50 سے 60 نوبل پرائز ہیں۔ ہماری پستی کا تو یہ لٹمس ٹیسٹ ہیں کہ ہمارے نوجوان یورپ کے سمندروں میں ڈوب کر مر جاتے ہیں۔ ہمیں اب ماضی اور دنیا سے سیکھنا ہوگا۔ اب تو سعودی عرب نے بھی ویژن 2030 سیٹ کر لیا ہے۔
پاکستان ایک خود مختار ملک صرف اسی صورت میں بن سکتا ہے جب ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جائیں گے۔
2 thoughts on “چندریان-3 اور پاکستان کے لیے چیلنجز”
Elucidated the point perfaectly .
Elucidated the point perfectly .