Premium Content

Add

“!چھوٹی قینچی کاتوپتہ نہیں مگر۔۔۔”

Print Friendly, PDF & Email

“!چھوٹی قینچی کاتوپتہ نہیں مگر۔۔۔”

مصنف :        ڈاکٹرسیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر،چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایک دن ایک خاتون خانہ اپنی ملازمہ کو بلاوجہ ڈانٹے چلی جارہی تھیں۔قینچی کو لے کر بہت پریشان ہورہی تھیں اور اُس غریب کو ہلکان کیے جارہی تھیں۔باربارکہہ رہی تھیں میں نے یہیں تو رکھی تھی۔ کہاں گئی چھوٹی قینچی۔ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ تمہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ بس تنخواہ لینے کا پتہ ہوتا ہے۔ کوئی کام نہیں کرتیں۔ کام کی نہ کاج کی۔ دشمن اناج کی۔ کھانے پینے کی شیر ہو۔ بتاؤ مجھے کہاں ہے قینچی۔بولتی کیوں نہیں۔ سوں سوں بند کرو جواب دو۔ خاتون نے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا تھا۔ بار بار ملازمہ پر چیخ رہیں تھیں۔ ملازمہ بے بسی سے روئے جارہی تھی۔ اتوار کادن تھا۔ صاحبِ خانہ پاس بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ بہت بدمزاہورہے تھے مگرچپ چاپ بیٹھے سب ہوتادیکھ رہے تھے۔ اُنہیں اپنی شریک حیات سے اس طرح کے رویئے کی قطعاً توقع نہ تھی۔ آخرکاراُن کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اہلیہ کو کہنے لگے ”آپ کو چھوٹی قینچی کیلئے اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟۔ مجھے تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ منہ میں اتنی بڑی قینچی قدرت نے رکھ چھوڑی ہے۔ آپ کی زبان کی کاٹ کا مقابلہ تودنیا کی کوئی قینچی نہیں کرسکتی۔ آپ نے  ملازمہ کی روح تک زخمی کرکے چھوڑی ہے۔ اب بس کریں۔ اُس کے حال پر رحم کریں۔ کچھ میرا خیال کریں۔ ہم نے مرنا بھی ہے۔ کل خالق کائنات کو کیا منہ دکھائیں گے“۔ خاتونِ خانہ کو اپنی غلطی کااحساس ہوا۔ ملازمہ کی شکل دیکھ کر مزید ندامت ہوئی۔ اُسے گلے لگایا۔ معافی مانگی۔ آئندہ کیلئے محتاط ہوگئیں۔ ملازمہ کو ہمیشہ اپنے جیساانسان سمجھا۔

https://republicpolicy.com/ghurbat-kya-hai-aur-taraqi-kya-ha/

            ایک صاحب کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی شادی خاندان والوں کی مرضی سے کی۔کچھ عرصہ بعد ایک خاتون سے محبت ہوگئی۔ اُس سے شادی کرلی۔ دونوں بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ بچوں کی شادیاں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے بہترین زندگی عطا کی۔ ایک دن صاحب کاانتقال ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد اُن کی پہلی بیوی کا بھی انتقال ہوگیا۔ جنازے پر تمام رشتے دار آئے۔ ایک عزیزہ مزاج کی بہت تیز تھیں۔ گفتگو میں بہت غیر محتاط تھیں۔ وہ کہنے لگیں ”کیا پتہ بزرگ کو اپنی پسند والی کا انتظار ہو۔ عالم بالا میں پہلی بیوی کودیکھ کر غصہ ہی نہ کرجائیں کہ تم یہاں بھی آگئی ہو۔ مجھے تو دوسری کا انتظار تھا“۔ سننے والے توبہ توبہ کرنے لگے۔ خاتون کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ صدق دل سے توبہ کی۔ دین سیکھنا شروع کردیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی لوگ اُن کے اخلاق کی مثالیں دینے لگے۔

            ایک صاحب ایک بھٹہ خشت کے مالک تھے۔ بھٹہ پر کافی تعداد میں مزدور کام کرتے تھے۔ مزدوروں کی اکثریت انتہائی غریب تھی۔ ایک غریب مزدور کی بچی بھی صاحب کے گھر کام کرتی تھی۔ بچی انتہائی کم عمر تھی۔ خاتونِ خانہ بہت بداخلاق تھیں۔ بچی کو تشدد کانشانہ بھی بناتی تھی۔ ہر وقت طعنے دیتی رہتی تھیں۔کہتی تھیں ”جب سے تم اس گھر میں آئی ہو گھر کابھٹہ بٹھادیا ہے“۔ بچی اُن کی باتیں سمجھ نہ سکتی تھی مگر پریشان رہتی تھی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ علاقے میں سیلاب آگیا۔ بھٹہ بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔ بھٹہ واقعی ہی بیٹھ گیا۔ خاتون کو خیال آیا یہ سارا وبال معصوم بچی کے ساتھ اُن کے سلوک کی وجہ سے ہے۔ بچی کی بددعاؤں کااثر ہے۔ انہوں نے آئندہ کیلئے توبہ کی۔ بچی کو اپنی اولاد سمجھنا شروع کردیا۔ اللہ پاک نے بہت برکت دی۔

https://republicpolicy.com/punjab-police-ma-taraqi-ka-nizam/

            ایک صاحب کی بیوی ملازمت کرتی تھیں۔ اُن کا کاروبار تھا مگر وہ عموماً زیادہ وقت گھر پر ہی گزارتے تھے۔ گھر کے کاموں کیلئے ایک جوان عورت ملازمہ رکھی۔ عورت خوش شکل تھی۔ ملازمہ انتہائی باکردار اورسلجھی ہوئی عورت تھی۔ صاحب اُس پر بُری نظر رکھتے تھے۔ اشاروں کنائیوں میں ورغلانے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ خاتون اُن کے رویے سے بڑی تنگ تھی مگر مالی مجبوریوں کی وجہ سے ملازمت ترک نہ کرسکتی تھی۔ اُس نے خاتونِ خانہ کو دبے لفظوں میں بات سمجھانے کی پوری کوشش کی مگر خاتون اپنے میاں کو فرشتہ سمجھتی تھیں۔ ملازمہ دعا کرتی رہتی تھی کہ اللہ تعالیٰ اُس کی عزت محفوظ رکھیں۔ ایک دن کسی ہنگامی ضرورت کے تحت خاتونِ خانہ اچانک گھر واپس آئیں تو دیکھا شوہرِنامدار ملازمہ کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ دوستی کرنے کی درخواست کررہے تھے۔ ملازمہ رو رہی تھی اور انکار کیے جارہی تھی۔ خاتون نے ملازمہ کو گلے لگایا۔ ملازمت چھوڑ دی۔ گھر رہنے لگ گئیں۔ اپنے”فرشتے“ کوانسان بنانے کی کوشش کرنے لگیں۔  ملازمہ کیلئے زندگی آسان ہوگئی۔ اُس نے دعاؤں کی قبولیت پر خالق باری تعالیٰ کا صدِ شکر ادا کیا۔

            ایک صاحب ایک گاؤں میں ایک دفتر کے انچارج تھے۔ نائب قاصد کو بہت بُرا بھلا کہتے تھے۔ گالی گلوچ بھی کرتے تھے۔ نائب قاصد بہت تنگ تھا مگر کچھ کرنہ سکتاتھا۔ایک دن صاحب دفتری اوقات کے بعد کسی وجہ سے دفتر بیٹھے رہے۔ تمام لوگ جاچکے تھے۔ نائب قاصد موجود تھا۔ صاحب باتھ روم گئے۔ ملازم نے تالا لگادیا۔ دفتر بند کرکے گھر چلا گیا۔ صاحب کو ساری رات بیت الخلا میں گزارنا پڑی۔ صبح عملے نے آکر تالے کھولے تو باہر نکلے۔ نائب قاصد پر غصہ کرنے لگے۔ اُس نے گزارش کی۔ ”صاحب ایک رات غلاظت برداشت نہیں ہوئی۔ میں تو مدتوں سے آپ کی باتوں کی غلاظت برداشت کررہا ہوں۔ میرے ظرف کی داد دیں۔“ صاحب کو اپنی غلطی کااحساس ہوا۔ آئندہ کیلئے اپنا رویہ درست کرلیا۔

            ایک ضلع میں محکمہ صحت میں ایک نئے افسر تعینات ہوئے۔ خوش مزاج تھے۔ مذاق کرنے کے شوقین تھے۔ لطیفے سنتے اور سناتے رہتے تھے۔ پہلی بار سرکاری کام کے سلسلے میں صوبائی دارالحکومت گئے۔ سفر کے دوران ڈرائیور سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ لطیفے سناتے رہے۔ واپسی پر بھی ڈرائیور کو ہنساتے رہے۔ ڈرائیور کہنے لگا ”سر! پہلی دفعہ مجھے ایسا لگا ہے جیسے میں نے کسی انسان کے ساتھ سفر کیاہو۔ آپ سے پہلے والے صاحب ہر وقت منہ پُھلاکربیٹھے رہتے تھے۔ مجھے لگتاتھا میں انسان کے ساتھ نہیں کسی تربوز کے ساتھ سفر کررہا ہوں۔ کئی بار تو میرا دل کیا کہ انہیں ”چک“ ماروں۔ پھر مجھے خیال آیا کڑوئے انسان اورکڑوئے تربوز کو ”چک“ مار کر بندہ خود ہی پچھتاتاہے۔ اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرتاہے۔ گلے سڑے تربوز اورگلےسڑے انسان سے بچ کے رہنا چاہیے۔

https://www.urduzone.net/ramzan-aur-reham-dili/

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1