ملک میں سائبرکرائم کے مقدمات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل ٹولز اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو ڈرانے، دھمکانے اور دھوکہ دینے کے واقعات میں بہت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2022 میں تقریباً 2,700 افراد، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں، نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کو ہراساں کیے جانے، مالی فراڈ اور بلیک میلنگ کی شکایات درج کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ شکایت کنندگان کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان تھیں جن میں سب سے زیادہ شکایات پنجاب سے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے، سائبر کرائم کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے اور ایف آئی اے کے اس وقت صرف 15 شہروں میں سائبر کرائم ونگز ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کو بتایا ہے کہ آن لائن شکایات کے اندراج کاطریقہ کار قابل بھروسہ نہیں ہے۔ درحقیقت، دفتر میں جا کر شکایت رجسٹرڈ کروانا زیادہ موثر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں سائبر کرائم مقدمات کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ آن لائن رپورٹنگ کے موثر طریقہ کار کی کمی کی وجہ سے، افراد صرف ان شہروں میں شکایت درج کروا سکتے ہیں جہاں ایف آئی اے کا ایک مخصوص ونگ ہے۔
جیسے جیسے پاکستان میں آن لائن کاروبار اور انٹرنیٹ کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، ان جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ ریگولیشن پر قانون سازی کرنا وقت کی سخت ضرورت ہے۔بدقسمتی سے، سائبر کرائم اور انٹرنیٹ ہراسانی سے نمٹنے کے لیے یا قوانین کو بہتر بنانے کے لیے سیاستدان اس میں بہت کم دلچسپی لے رہے ہیں۔ حکومت صرف قلیل مدتی فوائد کے لیے، یا کسی واقعے کے ردعمل کے طور پر قوانین بنانے پر مرکوز ہے۔قانون نفاذ کرنے والا ادارہ مقدمات کو حل کرنے کے لیے کیسے کام کرتا ہے یہ واضح نہیں ہے، اس لیے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ آیا صحیح کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ اس لیے خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے پاس اپنی شکایات درج کرانے کے لیے محدود پلیٹ فارم ہی موجودہے۔ حکومت کو ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ قوانین کہاں کمزور ہیں اور کیسے ان کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، اور سائبر کرائم کے متاثرین کو انصاف دلانے میں مدد کرنے کے لیے ادارے میں کہاں بہتر ی لائی جا سکتی ہے۔