علاقائی تعاون کی راہ میں بھارت کی رکاوٹیں

[post-views]
[post-views]

آمنہ یوسف

بھارت کی جانب سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی مسلسل کوششیں ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہوئیں، جب شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں نئی دہلی کی پاکستان مخالف شقیں مشترکہ اعلامیے میں شامل نہ کی جا سکیں۔ اجلاس چین کے شہر چھنگ ڈاؤ میں منعقد ہوا، جہاں بھارتی وزیر دفاع نے بلاواسطہ پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات عائد کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، پاکستان کی مزاحمت اور دیگر ممالک کے تحفظات کے باعث کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔ چین نے اگرچہ اس اتفاق رائے کی کمی کو معمولی قرار دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی یہ روش علاقائی اتحاد کے اصولوں کے خلاف ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے کثیرالملکی پلیٹ فارمز کو دوطرفہ تنازعات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہو۔ حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے دوران بھارت نے کے اُس بیان سے بھی خود کو علیحدہ کر لیا جس میں اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کی گئی تھی، حالانکہ ایران کا رکن ملک ہے۔ اسی طرح سارک تنظیم، جو جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کے لیے قائم کی گئی تھی، بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے عملی طور پر غیر فعال ہو چکی ہے۔ آخری سربراہی اجلاس 2014 میں کھٹمنڈو میں ہوا تھا، جبکہ 2016 میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والا اجلاس بھارت کی عدم شرکت کے باعث منسوخ ہو گیا۔

بھارت کی یہ روش صرف چھوٹے مفادات کی تکمیل نہیں بلکہ علاقائی امن، اقتصادی ترقی اور ثقافتی روابط کے وسیع تر مقاصد کی نفی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم، سارک اور دیگر علاقائی ادارے اس لیے قائم کیے گئے تھے کہ علاقائی ممالک باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی فلاح کی راہ پر چلیں۔ لیکن جب ایک رکن ملک انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے، تو ان تنظیموں کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

پاکستان نے بارہا بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے تاکہ تمام تصفیہ طلب امور بشمول مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ تاہم نئی دہلی کی موجودہ قیادت نے ہر موقع پر غرور اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، جس سے خطے میں امن کی امیدیں ماند پڑ گئی ہیں۔

جنوبی ایشیا دنیا کے اُن خطوں میں شامل ہے جہاں علاقائی تعاون سب سے کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے۔ تجارتی تبادلہ محدود ہے، عوامی روابط کمزور ہیں، اور باہمی اعتماد کی فضا معدوم ہے۔ بھارت، جو اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے، اُس پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قائدانہ بصیرت کا مظاہرہ کرے، نہ کہ الزام تراشی اور سیاسی چالوں سے خطے کو مزید تقسیم کرے۔

اگر علاقائی تنظیمیں جیسے اور سارک کو فعال بنانا ہے، تو تمام رکن ممالک کو باہمی احترام، شفافیت اور مذاکرات کے اصولوں پر کاربند ہونا ہوگا۔ بصورت دیگر، ان پلیٹ فارمز کی ساکھ اور مقصد دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔

پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہے اور تمام مسائل کو گفت و شنید سے حل کرنا چاہتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بھارت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ بصورت دیگر، جنوبی ایشیا کا خواب صرف کاغذوں تک محدود رہے گا، اور اس کے عوام ترقی و امن سے محروم رہیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos