آج کل ہر طرف ماحولیاتی آلودگی اور اس کے اثرات کا شور ہے کہ فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی، زمینی آلودگی، شور کی آلودگی، اور یہ کیسے کنٹرول ہوسکتی ہے وغیرہ۔ لیکن آلودگی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کا شور تو شاید سب سے زیادہ ہے لیکن ہم اس سے بالکل انجان بنے بیٹھے ہیں، حالانکہ اس کے مکمل ذمے دار ہم ہی ہیں، اور وہ ہے احساس کی آلودگی۔
اس آلودگی کا چرچا ہر روز پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہوتا ہے، لیکن ہم چونکہ اپنا بینک بیلنس بھرنے میں اس حد تک مصروف ہوچکے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جو کہ ہماری بنیاد ہیں۔
مادہ پرستی کے اس دور میں ہم ہر چیز کو پیسے سے تولتے ہیں، بے شک روپیہ پیسہ بہت کچھ ہے، لیکن سب کچھ نہیں۔ اس بہت کچھ کو حاصل کرنے کے چکر میں ہم سب کچھ بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ سب کچھ کیا ہے، وہ ہمارے رشتے ہیں، کچھ خون کے، کچھ برادری کے، کچھ محلے داری کے، کچھ نسبت کے، کچھ اسلام کے، لیکن ہم ہر چیز سے نابلد ہیں۔
بیٹے نے والدہ پر ہاتھ اٹھا دیا، کبھی بیوی کی وجہ سے، کبھی کھانا لیٹ دینے پر۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، کوئی جائیداد میں اپنی بہن کا حصہ دبائے بیٹھا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ اس سب سے ہم کیسے باہر نکلیں گے؟ آخر کب تک یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟
بڑا آسان سا سوال ہے اور اس کا جواب بھی ویسے تو بہت آسان ہے، لیکن ہم اس کا جواب تلاش کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں، جو جیسے ہے ویسا ہی چلتا رہے، بلکہ جو جیسے ہے وہ ویسے نہ چلے بلکہ ہماری مرضی سے چلے۔ ہم تو ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جس میں کسی کو اچھی راہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ وہاں رشتوں کے تقدس کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔
قرآن کہتا ہے ’والدین کو اف تک نہ کہو‘۔ لیکن ہم اپنی انا میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے روز سڑکوں پر نکل آتے ہیں، فرائض کی بات کون کرے۔ حضورﷺ کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو، اپنے بھائی کےلیے بھی وہی پسند کرو۔ لیکن ایسا کون کرے، سب کو اپنی تجوری پسند ہے۔
شوہر کی تعظیم کےلیے یہاں تک بات کی گئی کہ اگر اللہ کے بعد کسی کو سجدہ کا حکم ہوتا تو بیوی کو حکم دیا جاتا وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ شوہر کو تلقین کی گئی کو وہ روپیہ پیسہ جو وہ اپنی بیوی پر لگائے گا وہ بھی صدقہ میں شمار ہوگا۔ آج کل شاید ہی کسی کی ایسی سوچ ہو۔ ہمسائیوں کی بات کریں تو اسلام نے اتنی تاکید کی (حدیث کے مفہوم کی روشنی میں) اگر کوئی سالن پکاؤ تو شوربہ زیادہ کرلو اور ہمسائے کے گھر بھی سالن بھیجو۔ آج کون ایسا کرتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔
تو پھر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم احساس کی آلودگی سے آلودہ معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ یہ آلودگی ہماری اسی فرسودہ سوچ، لالچی طبیعت کا نتیجہ ہے۔ ہم اگر دینِ اسلام کی ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہوجائیں جن میں ہمارے فرائض کی بات کی گئی ہے تو یقین مانیے ہم سب کے حقوق بالکل سیدھے ہوجائیں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو اسلام پر کاربند رہنے کی ہمت اور توفیق دے، آمین۔