Premium Content

ایک زمانہ تھا

Print Friendly, PDF & Email

مصنفہ صفورا ضیاءانگریزی ادب کی لیکچرر ہیں۔

فرض کیجیے کہ آج سے تقریباً چالیس یا  پچاس سال پہلے وفات پا جانے والا کوئی شخص زندہ ہو کر  اگر اس دنیا میں دوبارہ واپس آ جائے تو وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔  ہو سکتا ہے وہ اس دنیا میں اپنی پہلی گزاری ہوئی زندگی سے ہی مکر جائے۔

جی ہاں! یہ دنیا اب بہت مختلف ہو چکی ہے۔ جس زمین کے ہم باشندے ہیں، جو ہمارا مسکن ہے ۔ جو آسمان ہماری چھت ہے ۔ ہم نے اس  زمین و آسمان کی گہرائیوں اور اونچائیوں کو جانچنے کی لیے بہت سی تدابیر کی ہیں اور کر رہے ہیں لیکن زمین کی خلافت جو خُدا کی طرف سے ہمیں سونپی گئی تھی، ہم ایک دوسرے سے آگے جانے کی چاہ میں اسے بھول گئے۔

ایک وقت تھا  کی جب ایک دوسرے کی مدد کو بغیر کسی معاشرتی، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی  تعصب کے کارِ عظیم سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ وقت میں بغیر مفاد کے ہم انسان کسی کی بات تک نہیں سنتے ۔ ہم میں سے اکثریت کی اب یہ رِوّش بن چکی ہے کہ کسی دکھی یا بیمار یا زخموں سے چُور کسی انسان کی داستان سنتے ہی، مکمل ہونے سے بھی پہلے ہم ذہن میں اسے “پاگل” کا خطاب دے چکے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ اس انسان کے سامنے ہی اسے کہہ دیتے ہیں کہ شاید وہ پاگل ہے۔ یقین جانیے اس طرح کے القابات سے اس انسان کے دکھ کا مداوا تو نہیں ہوتا البتہ ایسے الفاظ زخموں پرچھڑکا ہوا نمک ضرور ثابت ہو جاتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ جب میٹرک یا ایف اے پاس ایک قصبے میں چند ہی لوگ ہوا کرتے تھے۔ اور بی اے یا ایم اے ڈگری یافتہ کی تعداد  ایک یا دو ہوتی تھی۔ تب تعلیم  بہت عام نہیں تھی لیکن ایک دوسرے کا احترام تھا ، عزت تھی۔ ہم یہ جانتے تھے کہ انسان کا اصل کردار اس کی گفتگو سے عیاں ہوتا ہے۔ گفتگو سے اس کی تربیت نظر آتی ہے۔  ہمارے لفظوں کا چناؤ ہمارے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت ہوا کرتا تھا۔ افسوس اب تعلیم کا راج ہر طرف ہے لیکن اس کا ثبوت بس ڈگری کے کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ اب تو لفظوں کا چناؤ دور کی بات ہمارے لہجے بھی ہمارے اچھے کردار کی صدا دینے سے عاری ہیں۔ اب شاید ہم بڑے بڑے مکتبوں اور  یونیورسٹیوں سے ڈگریاں اس لیے لے کر نکلتے ہیں کہ اپنے سے کم پڑھے لکھے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر سکیں۔

اس زمین نے وہ وقت بھی دیکھا جب اپنے سے آگے نکل جانے والے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ عقل و دانش، دولت و ثروت کم رکھنے والے لوگوں کو ساتھ لے کر چلا جاتا تھا ۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیے بغیر  ان کی ترقی میں ہاتھ بٹایا جاتا تھا۔ لیکن اب تصویر مختلف ہے۔ اب تصویر میں تھوڑی سی جگہ مفاد پرستی، کینہ ، بغض اور حسد نے لے لی ہے۔ یہ تمام اجزاء جن کا ذکر کیا گیا ہے آج کے دور میں زیادہ عام ہو گئے ہیں کہ انسان سے انسان کی ترقی ہضم نہیں ہوتی۔ ایک گھر سے شروع ہونے والا کینہ بغض گلی محلوں میں سرایت کرتا ہوا معاشرے کے تمام حصوں میں پھیل چکا ہے۔

یہ آسمان تب بھی موجود تھا جب ہم مذہب کو اصل  ضابط اخلاق اور ضابط حیات سمجھتے تھے۔ ہم زمین و آسمان کے مالک کی لاٹھی سے ڈرتے تھے۔ ہم اس کو ناراض کرنے سے خوفزدہ  ہوتے تھے۔ ہمیں دینے والا صرف خدا ہوتا تھا۔ ہم اس کے آگے روتے تھے۔ تب مذہب پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے تھے لیکن اب اس موجودہ دور میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ خُدا تو ہر وقت یہیں موجود ہے۔ جس بات کے لیے اس کے آگے رونا تھا اب دنیا کے چھوٹے خداؤں کے آگے روتے پِھرتے ہیں۔ پیِروں کے منتروں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ لوگوں کے آگے گناہ کر کے ہم شرمندگی محسوس نہیں کرتے ابس اتنا کہتے ہیں “یہ چیز تو آج کل ٹرینڈ میں ہے” ، اور بند کمروں کی خلوت میں خدا موجود  ہے، یہ بھول جاتے ہیں۔  اب ہم مذہب  کو اپنی دنیاوی خواہشات پانے کے لیے ایک آلے کے طور پر زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے رستوں نے دیکھا کہ ہمارے بزرگ گھر سے خصوصاً نکل کر انھی رستوں پر چل کر بنکوں سے رقوم لینے جایا کرتے تھے ۔ رقم تو ایک بہانہ ہوتا تھا۔ وہاں کوئی دو چار دوست مل جاتے تو بس ایک محفل سی جم جاتی ۔ ایک دوسرے کا حال احوال ، خوشی غمی سنائی جاتی اور چائے کی میزوں پر لگنے والےقہقہے اگلی ملاقات تک اس جگہ پر گونجتے رہتے۔ اب  یہ طریقہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ ایک کلک سے گھر بیٹھے رقم نکلوا سکتا ہے اور  بھیج سکتا ہے  اس کے نزدیک زمانہ فاسٹ ہو چکا ہے اور زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے ۔ زمانے کے ساتھ چلتے چلتے وہ چائے کی میزوں پر گونجنے والی آوازیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔اور ان رستوں پر گاڑی سے ریپرز باہر پھینک کے خوش ہوتے ہیں۔ اب بس واٹس ایپ سے فون کال پر حال پوچھ کر جلدی سے یہ کہہ کر سوشل میڈیا پر  ٹرالنگ شروع کر دی جاتی ہے کہ ” مجھے ایک ضروری کام  ہے۔”

جاری ہے

5 thoughts on “ایک زمانہ تھا”

  1. بہترین تحریر ہے یہ. اس میں ہمارے معاشرے کے خراب رویوں کواجاگر کرنے کی اچھی کاوش کی گئی ہے اور واقعی پرانے زمانے میں لوگ اور حالات آج سے بہت بہتر ہوتے تھے. خوش رہیں سدا اور ایسے ہی لکھتی رہیں.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos