Premium Content

فیض آباد کمیشن نے جنرل فیض کو الزامات سے بری کردیا، تنقید سے بچنے کے لیے فوج کو عوامی معاملات سے دور رہنے کا مشورہ

Print Friendly, PDF & Email

اسلام آباد: نومبر 2017 کے فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن نے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کیے گئے تین رکنی کمیشن نے دوسرے روز اپنی 149 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کردی۔

ذرائع کے مطابق کمیشن نے معاملے سے نمٹنے میں مختلف خامیوں کا حوالہ دیا اور تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے سے متعلق حالات کا جائزہ لینے کے بعد سفارشات تیار کیں۔

رپورٹ میں اسلام آباد پولیس، وزارت داخلہ، پنجاب حکومت، آئی ایس آئی اور آئی بی کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے اور سابق وزیر قانون زاہد حامد سے متعلق معاملات کی تفصیلات شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیض حمید، بطور میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی، کو اس وقت کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل نے مظاہرین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کا اختیار دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی جنرل (ر) فیض حمید کو بطور ثالث بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا اور سفارش کی کہ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں موجود کمزوریوں کو دور کیا جائے۔

انکوائری کمیشن نے نشاندہی کی کہ فیض آباد جیسے واقعات حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کمیشن نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ فیض آباد واقعے سے سبق سیکھیں۔

رپورٹ میں پنجاب حکومت کو ٹی ایل پی کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دینےکا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ جڑواں شہروں کی پولیس میں کمیونی کیشن کی کمی کے نتیجے میں ہلاکتیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کے لیے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ 25 نومبر 2017 کو آئی ایس آئی کے تعاون سے ایک معاہدہ طے پایا اور مظاہرین منتشر ہو گئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دھرنے کے دوران فوجی افسران، نواز شریف اور وزراء کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں اور حکومت سوشل میڈیا کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔

کمیشن نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ اس وقت ملک کی کسی بھی قیادت نے اس واقعے کے لیے کسی ادارے یا اہلکار کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا۔ کسی شہری معاملے میں فوج یا ایجنسی کی مداخلت سے ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

کمیشن نے تجویز دی کہ تنقید سے بچنے کے لیے فوج کو عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ کمیشن نے مزید کہا کہ شہری معاملات کو سنبھالنا آئی بی اور سول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

کمیشن نے پنجاب حکومت کو غافل اور کمزور پایا جس کی وجہ سے خونریزی ہوئی۔ عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ریاست کو آئین، انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

کمیشن نے تجویز دی کہ اسلام آباد میں تعینات ہونے سے پہلے پولیس افسران کو مشکل علاقوں میں تعینات کیا جائے۔امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوسرے اداروں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی لازمی ہے ۔

انکوائری کمیشن کی سربراہی سابق آئی جی سید اختر علی شاہ کر رہے تھے اور اس میں سابق آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینئر افسر خوشحال خان شامل تھے۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos