Premium Content

ہماری پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام کیوں ہیں؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر:   عبد الغفور چودھری

 اب ہم تیسرے مرحلے یعنی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی طرف آتے ہیں۔اس حوالے سے ایک ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا ذکر کرنااشد ضروری ہے، جس نے نہ جانے کس کو خوش کرنے کے لیے نام نہاداختیارات کی تقسیم اور انہیں نچلی سطح تک منتقلی کے نام سے ریاست کے ساتھ ایک کھلواڑ کیا جو اس کا ایک ناقابل ِ معافی جرم ہے۔ اس کے دورِ حکومت کے2001ء کے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے نفاذ سے قبل تعزیراتِ پاکستان کے ایگزیکٹو نوعیت کے چار ابواب (8،9،10اور 13)اور تمام لوکل اینڈ اسپیشل لاز کی سماعت کے اختیارات ضلعی انتظامیہ کے پاس تھے،جس سے حکومتی رٹ بھی مضبوط تھی اور امن عامہ کی صورتحال بھی مثالی تھی، لیکن مذکورہ ایکٹ کے نفاذ کے بعدانتظامیہ سے یہ اختیارات چھین کر انہیں بے دست و پا اور بے بس کر دیا گیا۔انہیں سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ مجسٹریٹ کا نام عزت و تکریم کا ایک استعارہ ہوا کرتا تھا۔اس نام کو بے توقیر کر دیا گیا۔ ایسے ایسے افسروں کو پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے اختیارات دے دیئے گئے، جنہوں نے کبھی تعزیراتِ پاکستان اور مجموعہ ضابطہ فوجداری کا نام بھی نہیں سنا تھا۔

موجودہ حالت یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کے 39 اضلاع میں 1260 کے لگ بھگ پرائس مجسٹریٹ یعنی اوسط 32 مجسٹریٹ فی ضلع کام کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ضلع قصور میں 44، بہاولنگر میں 49 اور رحیم یار خان میں 51 افسروں کے پاس پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کے اختیارات ہیں۔اس طرح کے تمام مجسٹریٹ صاحبان نے اپنی گاڑیوں پر نیلی بتیاں رکھی ہوئی ہیں۔ فل پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں اور کام دھیلے کا نہیں۔ان میں سے بہت سارے مجسٹریٹ صاحبان کی عام طور پر شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ وہ شام کو گھر جاتے وقت مخصوص دوکانوں سے فروٹ، سبزی اور حتیٰ کہ کھانا بھی مفت لے کر جاتے ہیں۔ راقم الحروف جب ضلع قصور میں بطور ڈی او سی تعینات تھا۔ایسی ہی ایک انکوائری میرے پاس آئی تھی۔ ایک ہوٹل والے کی شکایت تھی کہ ایک پرائس مجسٹریٹ صاحب روزانہ کی بنیاد پر ہوٹل سے کھانا کھاتے ہیں اور جاتے ہوئے گھر بھی پیک کروا کر لے جاتے ہیں۔ بل نہیں دیتے۔ تقاضا کرنے پر کہتے ہیں کہ میرے پاس تمہیں کھڑے کھڑے چھ ماہ تک جیل بھیجنے کے اختیارات ہیں۔ انکوائری منعقد کی گئی۔ ہوٹل والے کی بات درست ثابت ہوئی،جس کے نتیجے میں مجسٹریٹ صاحب سے مجسٹریسی کے اختیارات واپس لے لئے گئے اور ان کے محکمہ کو ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کے لئے بھی تحریر کر دیا گیا۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

ان مجسٹریٹ صاحبان کا کام کرنے کا طریقہ کیا ہے، ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیں؟انہیں ڈپٹی کمشنر صاحبان کی طرف سے جرمانے کے ٹارگٹ دیئے جاتے ہیں۔اس کی رپورٹ روازانہ کی بنیادپر احکام بالا کو بھیجی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں پہلا کالم کل معائنہ کا ہوتا ہے، دوسرا کالم جرمانے کا، تیسرا کالم سزا کا اور چوتھا کالم ایف آ ئی آر کے اندراج کا ہوتا ہے۔ یہ مجسٹریٹ صاحبان با مر مجبوری ہفتے میں ایک یا دو دن دفاتر سے باہر نکلتے ہیں، چند غریب ریڑھیوں اور ٹھیلے والوں کو پکڑتے ہیں۔ان سے جرمانہ وصول کرتے ہیں۔ وصول کردہ جرمانہ غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھتے ہیں۔پھر تھوڑا تھوڑا کر کے اس جرمانے کی رپورٹ روزانہ کی بنیاد پر حکام بالا کی خوشنودی کی خاطر ارسال کرتے رہتے ہیں۔چند انتظامی افسروں کو چھوڑ کر ان مجسٹریٹ صاحبان کو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعات 262تا 265 کی کاروائی کیا ہوتی ہے۔وہ صرف جرمانہ کی پرچی بھرنااور ملزم سے جرمانہ وصول کرنا جانتے ہیں۔ اس طرح کے مجسٹریٹ صاحبان اس قابل تکریم اور معزز عہدے کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ جرمانہ میں سودے بازی بھی کرتے ہیں۔ دس ہزار جرمانہ سنا کر دو ہزار وصول کر کے پرچی دکاندار کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ انہیں اِس بات کااندازہ ہی نہیں ہے کہ جب وہ کسی کو جرمانہ کی سزا سنا رہے ہوتے ہیں تووہ ایک عدالت کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ عدالتوں کا سنایا گیا زبانی حکم بھی حتمی حکم ہوتا ہے۔ایک دفعہ سزا سنانے کے بعد قانون کے مطابق اس میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ جرمانہ زیادہ سنا کر کم وصول کرنا عدالتی حکم کی توہین ہے، لیکن وہ کیا کر رہے ہوتے ہیں انہیں اِس بات کاشعور ہی نہیں ہے۔ (جاری ہے)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos