Premium Content

”ہمارے گھر میں پٹرول بھی ہے اورپمپ بھی ہیں“

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

ایک محترمہ تعلیم میں بالکل دلچسپی نہ لیتی تھیں۔ قبول صورت تھیں۔ نمایاں ہونے کا شوق بہت نمایاں تھا۔بہت زیادہ امیر کبیر گھرانے سے بھی تعلق نہ تھا۔تاہم نہایت فخر سے تمام لوگوں کوبتایاکرتی تھیں ”ہمارے کئی پیٹرول پمپ ہیں“۔گریجوایشن کرنے کیلئے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا۔ایک ہم جماعت بھی اُنہی کے شہر کے رہنے والے تھے۔ محترمہ ایک دن پوری کلاس پراپنی امارت کا رُعب جھاڑ رہی تھیں کہ ہم شہر، ہم جماعت بھی کہہ اُٹھا”ہم بھی آپ جیسے اثاثوں کے مالک ہیں“۔ خاتون حیران رہ گئیں۔ استفسارکیا ”اپنے پٹرول پمپ کی لوکیشن بتائیں“۔ جواب ملا”میرے چھوٹے بھائیوں نے اپنے سائیکلوں میں ہوابھرنے کیلئے پمپ رکھے ہوئے ہیں۔والد صاحب رقبے پر جانے کیلئے موٹرسائیکل میں ڈالنے کیلئے پٹرول کے کئی ”کین“ گھر میں رکھتے ہیں۔تین ”کین“ اور تین ”پمپ“ اس وقت بھی گھر پڑے ہیں۔سو ہمارے پاس پٹرول بھی ہے اورپمپ بھی۔ہم بھی پٹرول،پمپ کے مالک ہیں۔“

         ایک ہی علاقے کے دو زمیندار صوبائی دارلحکومت میں ملے۔ تعارف ہوا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا ”آپ کی کتنی زمین ہے؟“۔ دوسرے نے نہایت مدبرانہ جواب دیا ”پہلے میں کیوں بتاؤں کہ میری کتنی زمین ہے۔ جناب پہلے آپ کو بتانا پڑے گا کہ آپ کی زمین کتنی ہے۔ پھر میں فیصلہ کرسکوں گاکہ آج کل میری کتنی زمین ہے“۔

         دوکاشت کار کافی عرصہ کے بعد ملے۔ اُن دنوں کپاس کی فصل بہت اچھی ہوئی تھی۔ سب کی اوسط پیداوار بہت مناسب رہی تھی۔  ایک نے دوسرے سے کپاس کی اوسط پوچھی۔ کاشت کار بھائی نے بہت زیادہ اوسط بتائی اور دوسرے سے اُن کی فصل کی اوسط پوچھی۔ انہوں نے بتائی گئی اوسط سے پندرہ من فی ایکڑ زیادہ بتائی۔ ہمارے بھائی کو بہت حیرت ہوئی اور انہوں نے حیرانی سے پوچھا ”اتنی پیداوار آپ نے کیسے حاصل کرلی“۔ جواب ملا ”جیسے آپ نے کی“۔ حیرت سے تفصیل پوچھی تو بتایا گیا ”آپ نے بھی جھوٹ سے کی، میں نے بھی جھوٹ سے کی“۔

         ایک صاحب نے کسی بھی تعلیمی ادارے کامنہ تک نہ دیکھاتھا۔ پکے، سکہ بندچٹے ان پڑھ تھے۔ تعلیم کی کمی کبھی اُن کی ماہرانہ صلاحیتوں کے آڑے نہ آسکی۔ گردے کی پتھری کے علاج کے ماہر تھے۔ شرطیہ علاج کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کے مطابق اُن کا دعوی بالکل سچا تھا۔ اُن سے علاج کروانے کے بعد پتھری نہیں رہتی تھی۔ پتھری گردے میں ہوتی تھی۔ اُن کا علاج مریض کاگردہ تباہ کر دیتا تھا۔ مریض کی جان تب ہی بچتی تھی جب گردہ نکال دیا جاتا تھا۔  یوں وہ مرض کا علاج جڑ سے کرتے تھے ”نہ ہوا گردہ نہ رہی پتھری“۔ کئی مریض جان سے جاتے تھے۔پتھری زندہ لوگوں کامسئلہ ہے۔ ”نہ رہی زندگی توکیسی پتھری“۔

         ایک صاحب نے اپنے مخالف پر پرچہ کروادیا مگر سزا نہ ہونے دیتے تھے۔کوئی وجہ پوچھتا تھا تو اُس کو ”جوں“ والا واقعہ مزے مزے لے لے کر سناتے تھے۔ ”ایک آدمی کے سرمیں جوئیں تھیں۔ وہ جوئیں پکڑتااوراپنے پاؤں پر چھوڑ دیتا۔ جوئیں دوبارہ سر میں آتیں۔ وہ پھر پکڑتا اور پاؤں پرچھوڑ دیتا۔ کافی دیر یہی کرتا رہا تو ساتھ بیٹھے آدمی نے وجہ پوچھی۔ ہنس کرجواب دیا ”مقصد ان کو مارنا نہیں ہے”پینڈا“ کروانا ہے۔ میرا مقصد بھی مخالف کو سزا دلوانا نہیں پرچا،چرچا اورخرچا کروانا ہے“۔

         ایک بزرگ اپنا مسئلہ لے کر آنے والے ہرشخص سے اُس کاپیشہ ضرور پوچھتے تھے۔ علاج وہ اپنی چھڑی کی ضربات سے کرتے تھے۔ ہربیماری کیلئے ضربوں کی تعداد مخصوص تھی۔ ایک صاحب کے مسئلہ کیلئے چارچھڑیاں کافی سمجھی جاتی تھیں۔ اُن صاحب کے تعارف کے بعد بزرگ نے چھڑیوں کی تعداد آٹھ کردی۔ وجہ پوچھنے پردو چھڑیاں اور دے ماریں اور کہا اگر تمہیں اتنی سمجھ نہیں ہے کہ تمہیں چار چھڑیاں زائد کیوں ماری گئی ہیں تو ابھی تک اس پیشے میں کیوں ہو؟۔

         ایک بزرگ اپنے دس سالہ پوتے کواپنی شادی کی وجہ کچھ اس طرح بتارہے تھے ”بیٹامیں اپنے والدین کا فرماں بردار نہیں تھا مگر تمہاری دادی اپنے والدین کی بہت خدمت کیاکرتی تھیں۔میرے ماں باپ کہتے تھے ”بیٹا اپنے کیے کا پھل پاؤ گے“۔ تمہاری دادی کے والدین اُس کو دعادیتے تھے کہ”کسی عظیم انسان سے تمہاری شادی ہوگی“۔دونوں کی بات پوری ہوگئی۔اللہ نے اُن کے والدین کی بھی سن لی اور میرے ماں باپ کاکہا بھی پوراکردیا“۔

         ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ چھٹیوں میں اپنے آبائی گھرآئے۔ان کاگھر جس محلے میں تھا،وہاں ہرگھر کی بیٹھک نہیں تھی۔ پڑوسیوں نے انہیں کہاکہ اُن کے مہمان آئے ہوئے ہیں اورایک صاحب تھوڑی دیر اُن کی بیٹھک میں بیٹھیں گئے۔ تعارف ہواتو مہمان نے بتایا”وہ بھی ڈاکٹر ہیں“۔ ہمارے طالب علم کو بہت خوشی ہوئی۔ مہمان سے پوچھا ”آپ کس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہیں؟“۔ جواب ملا ”میں کسی میڈکل کالج میں نہیں پڑھ رہا۔ شہر کے ایک ڈاکٹر کے پاس پورے تین مہینے اُن کے کلینک پر رہا ہوں۔ اب میں بھی ڈاکٹر ہوں“۔ ہمارے اسٹوڈنٹ نے بڑی متانت سے کہا”اچھا۔بہت اچھا۔آپ نے تو پھراپنی تعلیم مکمل کرلی ہے۔میں ابھی زیرتعلیم ہوں“۔

         ایک صاحب صوبائی دارلحکومت سے واپس اپنے گاؤں آئے۔کچھ عرصہ سے اُن کو پیٹ میں شدیددردکی شکایت تھی۔ پتہ چلا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک خاتون دم کرتی ہیں۔چنداحباب کے ساتھ وہ محترمہ کے پاس گئے۔خاتون نے تحمل سے اُن کی بات سنی۔ دم کرنے سے انکارکردیا۔اُنہیں بہت صدمہ ہوا۔ حیرت بھی ہوئی۔وجہ پوچھی تو خاتون نے بتایا ”میں صرف ذہنی امراض کی ماہر ہوں،صرف سردرداورذہنی مریضوں کودم کرتی ہوں۔آپ جیسے مریضوں کو متعلقہ جگہ پرجاناچاہیے“۔انہوں نے دورکے ایک گاؤں میں موجوداپنی ماہر کولیگ کاپتہ بھی بتایا۔صاحب کوپیٹ کادردکم لگنے لگاکیوں کہ اُن کے سر میں شدت سے درد ہونے لگاتھا۔

         ایک تعلیمی ادارے میں چھٹیاں ہوئیں توایک دوست اپنے ہم جماعت کے گھر پہلی دفعہ چند دن گزارنے آئے۔ دوست کے والد سے مل کرانہیں بہت زیادہ خوشی ہوئی۔اتنی خوشی ہوئی کہ اُن کادوست حیران رہ گیااوربڑی مسرت سے اپنے والدسے اتنامتاثر ہونے کی وجہ پوچھی۔جواب ملا”انکل کی فہم وفراست لاجواب ہے۔وہ آدھا گھنٹہ ہمارے پاس بیٹھے ہیں اور آپ کو پچاس دفعہ بیوقوف کہا ہے۔ انہوں نے پہلی دفعہ تمہیں بیوقوف کہاتو میرے دل پر اُن کی عظمت اورذہانت کا نقش پڑ گیا۔ جب جب وہ اپنی بات دہراتے رہے، نقش گہرا ہوتاگیا۔اب اُن کی عظمت اورذہانت کے نقوش انمٹ ہوچکے ہیں“۔          ایک ڈاکٹرصاحب کیمونٹی میڈیسن کے ماہر تھے۔جب اُن سے سوال کیاجاتاکہ ہمارے ہاں کون سی بیماریاں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔بڑاانوکھاجواب دیتے تھے۔ وہ شوگر،بلڈپریشریادیگرمعروف بیماریوں کی بجائے دو عجیب وغریب بیماریوں کے نام لیتے تھے۔ ”پروٹوکول اِٹس اورشوشااِٹس“۔بقول اُن کے ہمارے لوگوں کی اکثریت عمر کے کسی نہ کسی حصے میں ان دو بیماریوں کا شکار ضرور  ہوتی ہے اور ڈاکٹر بھی ان بیماریوں سے بچ نہیں سکتے۔

1 thought on “”ہمارے گھر میں پٹرول بھی ہے اورپمپ بھی ہیں“”

  1. اضافی چار چھڑیاں کھانے والے صاحب پیشے کے لحاظ سے سیاست دان تو نہیں تھے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos