Premium Content

“حقیر، فقیر، لکیر اورمنکر نکیر”

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔

میرے ایک دوست جب بھی اپنے آبائی علاقے سے صوبائی دارلحکومت واپس آتے ہیں تو کئی کئی دن اُن کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ وہ اپنے آبائی شہر کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ اس دفعہ جب وہ واپس آئے توکچھ بے رنگ سے تھے۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے ”پہلے ہمارے ہاں لوگ خود کو حقیر اورپُرتقصیرسمجھتے تھے اوردوسروں کو جناب اورمحترم سمجھتے تھے۔ اب تو لگتا ہے ایک آدمی جوفقیر ہوتا ہے وہ آپ سے خیرات بھی لے لیتا ہے اور آپ کو حقیر بھی سمجھتا ہے اور خود کو منکر نکیر سمجھتا ہے“۔ ایک شاعر نے اپنے معاشرتی بے حسی کا روناروتے ہوئے کہا تھا کہ”ہر طرف مردے ہی مردے پھر رہے ہیں۔ چلتے پھرتے مردوں سے ہی ملاقات ہوتی ہے۔ زندگی کی ہر ساعت نئے کشف ہو رہے ہیں اور نئی کرامات نظر آرہی ہیں“۔

        پہلے ہمارا معاشرہ مرشدوں اورپیروں کامعاشرہ تھا۔ اب تو لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ منکروں اورنکیروں کامعاشرہ بنتاجارہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے اعمال اوراقوال پر اتنی گہری نظررکھنے لگے ہیں کہ گھٹن کا احساس ہوتاہے۔ تشدد کا چلن دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے لوگوں کی قوتِ برداشت مثالی ہوتی تھی۔ اب لگتاہے ہمیں دشمنوں کی نظر لگ گئی ہے۔ اب تو معمولی معمولی بات پر یارانے اور دوستانے ختم ہونے لگیں۔ ہمارے ہاں محافل میں اور عوامی مقامات پر لوگ ہمیشہ سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔ لیکن اگر کبھی کوئی قابل اعتراض بات کہہ دیتا تھا تو سننے والے اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز کردیتے تھے۔ بات کرنے والا خود بھی اپنے الفاظ کو پتھر پر لکیر نہیں سمجھتاتھا۔ اگر غلطیاں ہوتی تھیں تو کفارے بھی ادا کیئے جاتے تھے۔ لوگ بلا جھجھک اپنے دلی جذبات کااظہار کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی بات سننے کارواج تھا۔ خوف کی فضاکہیں پرطاری نہیں تھی۔ اب تو لوگ بولتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں حالانکہ ہمارے ہاں پہلے بھی اکثر اوقات پہلے تولا پھر بولا جاتاتھا۔ اب بہت سارے لوگ انسانیت چھوڑ کر منکر نکیر بن گئے ہیں۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک جنگ کے دوران ایک شخص نے کلمہ پڑھا مگر اُس کو یہ سمجھ کر قتل کردیا گیا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبیﷺ نے اس فعل کو پسند نہیں کیا۔ ایک صحابیؓ منافقین کے نام جانتے تھے مگر کسی کو بھی بتانے سے گریزکرتے تھے۔ ایک امام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کہا کرتے تھے کہ ”مجھے پتہ ہے کہ میری رائے درست ہے مگر میں اس پر اصرار نہیں کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی رائے میں بہتری کی گنجائش ہے مگر میں آپ کی رائے کا احترام کروں گا“۔

        ہمارے ہاں باہمی احترام اور بھائی چارے کاہمیشہ رواج رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی پیار محبت اوراحترام کا برتاؤ کیاجاتاتھا۔ لوگ واقعتاً ایک جسم کی مانند تھے اور ایک دوسرے کی تکلیف پر تڑپ اُٹھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعدہمارے ہاں لٹے پٹے لوگوں کی ایک کثیر تعداد مختلف علاقوں میں آئی۔ لوگوں نے کھلے دل کے ساتھ اُن کا استقبال کیا۔ اپنے گھر کا فرد سمجھا۔ کبھی کسی کو اجنبیت کااحساس تک نہ ہوا۔ لوگ ایک خاندان بن کر رہے۔ بہت سارے مقامات پر آنے والے حضرات کے رسوم و رواج مقامی روایات سے مختلف تھے۔ لوگوں کا اپنا اپنا کلچر تھا۔ لوگوں نے اعلیٰ انسانی روایات کا بھرم رکھتے ہوئے جہاں مہمان نوازی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں وہاں آنے والوں نے بھی مقامی افراد کی تہذیب و تمدن کو سینے سے لگایا۔ کھلے دل سے اپنایا۔ لوگ انسان ہی رہے، منکرنکیر نہیں بنے۔

        پیغمبر خداﷺ کے فرمان کامفہوم ہے کہ ایک مسلمان کیلئے یہ گناہ ہی کافی ہے کہ وہ کسی دوسرے کو حقیر سمجھے۔ ہمارے ہاں لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کی نیت کی بابت مثبت رویہ رکھتے آئے ہیں۔ ہمارے لوگ صوفی منش ہیں۔ وہ حضرت بابا بلھے شاہ، حضرت سلطان باہو، حضرت فرید الدین گنج شکر، حضرت علی ہجویری، حضرت خواجہ غلام فرید اور ان جیسے دیگر تمام صوفی بزرگوں کے ساتھ دلی عقیدت رکھتے ہیں۔ ان بزرگوں کاکلام وسیع القلبی اورانسانی ہمدردی کا بہترین درس دیتا ہے۔ ان کا کلام ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اعلیٰ انسانی اقدار بھی ہماری وراثت ہیں اورہماری ثقافت کاحصہ ہیں۔

        ہمیں دنیا کی بد ترین جنگ کاسامنا ہے۔ ہمارے دشمن ہماری اقدار کے خلاف ایک بہت بڑی جنگ چھیڑ چکے ہیں۔ وہ اس جنگ میں تمام ممکنہ ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کا فروغ اُن کا نصب العین ہے۔ ہمارے ہاں اس سازش کا صحیح طریقے سے ادراک نہیں کیاجارہا ہے۔ہماری نئی نسل اپنے صوفی شعرا کے کلام اور اُن کے طرزِ زندگی سے واقف نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے باہمی رواداری کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں جن کے نور سے آج تک انسانیت کی تاریخ منور ہے۔ اُن کے کلام میں اتنی صداقت اور طاقت ہے کہ آنے والے دور کاانسان بھی اُن سے راہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے لوگوں کے دل جوڑے رکھے اور ہماری دھرتی کا امن ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔

غیراں نال تے ہر کوئی لڑدا
نفس اپنے نال لڑنا اوکھا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos