Premium Content

Add

ہم کسی کو کیسے روک سکتے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

nawazkhalid123@gmail.com مصنف: نواز خالد عاربی   

بیرونِ شہر سے آئے دوست کے ساتھ، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے ایک معروف تجارتی مرکز خریداری کے لئے جانا ہوا۔دوست کو اپنے آن لائن کپڑے کی فروخت کے کاروبار کے لیے انواع و اقسام و جسامت کے ملبوسات خریدنے تھے۔لہٰذاکپڑے کی ورائٹی دیکھتے خریدتے  اتنی دیر ہو گئی کہ ہمارے معدے اپنی بے سروسامانی کا شکوہ کرنے لگے۔ ہم قریب میں ہی ایک مناسب سے ریستوران میں جا د ھمکے۔بریانی کا آرڈر دیا۔کھانے کے دوران میرے دوست نے آنکھوں سے مجھے ساتھ والی میز کی جانب دیکھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ہلکی سی گردن گھمائی تو نگاہیں غیر ارادی طور پرمیرے چہرے کے مُڑنے سے پہلے ہی لوٹ آئیں۔ وہاں ایک نوجوان لڑکی اور لڑکا ”اعضاء کی رنگیں گفتگو“  میں مصروفِ کار تھے۔یہ سب دیکھ کرمیرے کانوں میں ”میرا جسم میری مرضی“ کا واشگاف نعرہ سائیں سائیں کرنے لگا۔ بریانی کے دو چمچ  جیسے تیسے حلق سے اُتارے اور کاؤنٹر پر اس شکایت کے ساتھ بل ادا کیاکہ طعام گاہ کے تقدس کا ہی کچھ خیال کر لیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ خریداری کے لئے مارکیٹ میں آئے لوگ اگر اتفاقاََ یہاں آ نکلیں تو کیا تاثر لے کرجائیں گے۔ پیسے لے کر رسید میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کاؤنٹر کلرک بولا،”حضور ہمارا کاروبار ہے۔ ہم کسی کو کیسے روک سکتے ہیں۔ پھر یہاں تو روز ایسے لوگ آتے رہتے ہیں۔ہم اُن کی طرف دیکھتے بھی نہیں“۔میں کاؤنٹر کلرک کے”انتہائی عالمانہ جواب“ سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔

https://republicpolicy.com/resolutions-for-the-international-day-for-the-elimination-of-violence-against-women/ :مزید پڑھیں

ہم ریستوران سے نکل کر گاڑی میں آ بیٹھے اور کریم بلاک سے مولانا شوکت علی روڈ پر چڑھ کر نہر پر بائیں جانب مڑگئے۔”نہر ی سڑک“ پر تقریباً میل بھرہی چلے ہوں گے کہ ایک کم روشنی والی جگہ پر تین خواتین کھڑی نظر آئیں۔ نہ تو یہ بس سٹاپ تھااور نہ ہی کوئی عمارت یا آبادی پاس تھی۔میں نے گاڑی خواتین سے تقریباََپچاس گز کے فاصلہ پر آگے روک لی۔ چاروں دروازوں کو لاک کر کے اپنے والے دروازے کا شیشہ تھوڑا نیچے کر لیا۔ان تین خواتین میں سے ایک خراما خراما ٹہلتی گاڑی تک آگئی۔اس نے آتے ہی گاڑی کا پچھلادروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔لیکن اسے مقفل پاکر کچھ بُڑ بُڑائی اور ادھ کھلے شیشے پر آکر کہنے لگی،”اگر ساتھ لے جانا ہے توگاڑی کا دروازہ کیوں بند کر رکھا ہے“۔میں نے کہا کہ میں نے گاڑی دوست کو ٹیلیفون کرنے کے لئے روکی ہے،آپ کے لیے نہیں۔ وہ غصے سے پاؤں مارتی واپس اپنی ساتھیوں کی طرف چل دی۔

آپ لاہور میں، نہرکنارے، فیروز پور روڈ،ملتان روڈ، وحدت روڈ یا دیگر کسی اوربڑی سڑک پر سفر کر رہے ہوں تو بہت کم امکان ہے کہ آپ کوکسی نہ کسی الگ تھلگ جگہ پر ایک سے زیادہ جوان خواتین اپنی ”لہراتی اداؤں“ سے دعوتِ حضرنہ دیتی ملیں۔ بات لاہور تک ہی محدود نہیں ہے۔کراچی، راولپندی، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں سڑکوں پر جنسی رویوں کابے باکانہ اظہارمیرا جسم میری مرضی کے فلسفہ کی بے دھڑک اور بلا خوف”ترقی پذیری“ کی نشاندہی کرتا ہے۔آج سوشل میڈیا کے”فیوض وبرکات“نے وہ مناظربڑوں سے لے کر بچوں تک کے لیے سہل اور سستے مہیا کردیے ہیں جنہیں تقریباََ دودہائیاں قبل، کچھ خاص سینما گھرمہنگے داموں دکھانے کی خاص شہرت رکھتے تھے۔”مناظر“ کی اتنی آسان اور با افراط دستیابی نے جہاں پردے،حیاء اور لحاظ کے معانی کو بدل کر رکھ دیا ہے، وہاں ان  کے توسل سے جنسی محرکات و تعلقات کے بارے میں پائے جانے وا لے رائج ا لوقت معاشرتی نظم و ضبط میں ”حسنِ برداشت، قبولیت، اورستائشِ باہمی“ نے بتدریج قبول احوال کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔

https://republicpolicy.com/do-you-know-your-fundamental-rights/ :مزید پڑھیں

اردو ادب میں میر تقی میر سے لے کر فرحت عباس شاہ تک، پنجابی ادب میں پیر فضل حسین گجراتی سے لے کر ناز خیالوی تک، یٰسین اور ریاض سے لے کر الطاف بھروانہ تک، سبھی رومانوی شعراء کے ا شعار میں ملبوس محبوب کاتصور، ہجر کے گھاؤ اوروصل کی اُمیدیں،آج کے نوجوانوں کومحض مذاق سا لگتا ہے۔ ایک مرد یا خاتون کے پیار میں تارے گنتے آسمان سے باتیں کرنے، اُس کے طویل ہجر میں آہیں بھرتے زندگی کا پل پل سوچوں کے کرب میں گزارنے اور محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اس کے راستوں پر مارے مارے پھرنے کا موسم جیسے کب کا ڈھل چکا ہے۔ آج روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا کی ”جلوہ گاہوں“  میں اَن دیکھے،اَن ملے، کتنے ہی محبت کے رشتے  تیزی سے استوار ہوتے اوراس سے زیادہ تیزی سے ٹوٹتے  دکھائی دیتے ہیں۔ محبتوں کا یوں اندھا دھند اظہار کرنے والے لوگ شاید ہی کسی ایک ”محبوب“ سے اندھا دھند محبت بھی کرتے ہوں۔ اُن کا اس بات پر پختہ یقین ہے ”ایک ڈھونڈو،ہزار ملتی ہیں۔۔۔۔لڑکیاں میرے شہر میں،بے شمار ملتی ہیں“۔ اسی بات کو دوسری جانب سے یوں کہا جاتا ہے،  ”ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں،۔۔۔۔لڑکے میرے شہر میں،بے شمار ملتے ہیں“۔

اس”ترقی یافتہ“ سوچ نے بے راہروی کی کتاب کے کئی باب تحریر کر ڈالے ہیں۔”دلفریب الیکٹرونک محبتوں“کی بھینٹ چڑھی کتنی لڑکیاں بے بسی  کے مختلف مدارج سے گزر کر سڑک کنارے دادو دہش دیتی نظر آتی ہیں۔”الیکٹرونک محبت“ کے ثمرات گھروں میں بد اعتمادی،چیخ چنگھاڑ،ڈانگ سوٹا،،ڈپریشن اور سُبک رفتار طلاقوں کی صورت میں پورا معاشرہ بھگت رہا ہے۔ خاندانی نظام بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہے۔ والدین اوراولاد،بہن،بھائی اور دیگر عزیزاقارب بتدریج بڑھتے ہوئے فاصلوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

جتنی بھی کوشش یا احتیاط برت لی جائے،سوشل میڈیا سے اجتناب ممکن ہی نہیں ہے۔لیکن آزادی کے اِس حق کو سماجی ڈھانچے کی بیخ کُنی کی قیمت پر کہاں تک قبول کیا جا سکتا ہے۔ معاشرتی سائنسدانوں اور مذہبی راہنماؤں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ سماجی ڈھانچہ کی تشکیلِ نوع میں اپنا کردار ادا کریں اورعام فرد کو اِس ڈھانچہ میں اپنا تعمیری کردار ادا کرنے پر راغب کریں۔وگرنہ جسم فروشی کا دھندہ،  شہروں کے ریڈ لائیٹس علاقوں سے نکل کر،  سڑک کنارے بلب کی مدھم روشنیوں سے ہوتا ہوا،پُرشکوہ محلات کی جانب تیزی سے جاتا دکھائی دیتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1