قوم اس وقت انٹرنیٹ کی ایک اہم سست روی کے نتیجے میں جوجھ رہی ہے، جس سے بہت سے افراد بنیادی وجوہات اور مضمرات کے بارے میں حیران ہیں۔ یہ صورتحال سوشل میڈیا پر جانچ پڑتال کو تیز کرنے کے حالیہ پالیسی فیصلے سے پیدا ہوئی ہے، جو طویل عرصے سے موثر ضابطے کے بغیر کام کر رہا ہے اور اس پر حکومت کے سرکاری موقف کے ساتھ اپنے بیانیے کو ہم آہنگ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، حکومت نے “سکیورٹی بڑھانے” کے نام پر نگرانی کے اقدامات کو بڑھا دیا ہے اور چین سے حاصل کردہ فائر وال کو لاگو کرنے کے عمل میں ہے۔ اس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار میں 30سے 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جس سے آن لائن سرگرمیوں جیسے کہ ای کامرس اور ٹیلی کمیونی کیشن میں شدید رکاوٹ پیدا ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں اندازاً 500ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔
مناسب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا سخت طریقہ کیوں اختیار کیا گیا ہے، اور کیا انٹرنیٹ صارفین کی ذہنیت کو تبدیل کرنا ممکن ہے؟ زبردست جواب منفی لگتا ہے، ان اقدامات سے لامحالہ آزادی اظہار اور اظہار رائے کے حوالے سے ملک کی ساکھ کو داغدار کیا جا رہا ہے، اور اقتصادی طور پر مشکل دور میں ای کامرس کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ غیر مستحکم کنک ٹیویٹی (رابطہ) قومی اور اقتصادی سلامتی دونوں کے لیے خطرہ ہے اور موجودہ نقطہ نظر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ٹیلی کمیونی کیشن حکام کی طرف سے مواد کی فلٹریشن کے لیے مقرر کردہ معیار کے ساتھ مجوزہ انٹرنیٹ فائر وال کے نفاذ اور فعالیت کی مدت غیر یقینی ہے۔ اس پالیسی کے ابہام نے بین الاقوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں تشویش کو جنم دیا ہے اور بلا ضرورت ملک پر منفی توجہ مبذول کرائی ہے۔
پاکستان کو فوری طور پر ایک مضبوط اور موثر ٹیلی کمیونی کیشن فریم ورک کی ضرورت ہے۔ مواد کی جانچ پڑتال کے لیے پہلے سے ہی متعدد قانونی طریقہ کار موجود ہیں، جن میں توہین کے قوانین بھی شامل ہیں، جو فائر وال کی تنصیب کو پیشرفت میں غیر ضروری رکاوٹ بناتے ہیں۔ مزید برآں، ملک کے ٹیلی کام سیکٹر میں خاطر خواہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو دیکھتے ہوئے، انٹرنیٹ ریگولیشن کے حوالے سے من مانی فیصلے اسٹیک ہولڈرز پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس مسئلے کو سیاسی تحفظات سے بالاتر ہو کر حل کرنا اور قوم کو قابل بھروسہ انٹرنیٹ خدمات اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنا ناگزیر ہے، جو بالآخر مستقبل کے لیے ایک مثبت پیش رفت کو فروغ دے گا۔