
تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
کالم نگار نشترمیڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کاحصہ ہیں۔
کئی لوگ وعدے کے پکے ہوتے ہیں تو کئی لوگ ارادے کے پکےہوتے ہیں۔ اکثر لوگ ”استفادے“ کے پکے ہوتے ہیں۔ وہ جب بھی کسی سے استفادہ کرسکیں، ضرور کرتے ہیں۔ وہ اپنے اس فعل کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔شاید انہوں نے خودغرضی کاخودسے وعدہ کیا ہوتا ہے اور ہر کسی کو استعمال کرنے کا پکا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ انتہائی شرمناک بات ہے کہ چند انسان اپنے ہم جنسوں کو صرف استعمال کی چیز سمجھتے ہیں۔ لوگ چند استعمال کی چیزوں کے حصول کیلئے کسی سادہ دل کو عمر بھر استعمال کرتے رہتے ہیں مگر عمر بھر وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ وہ خود شیطان کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں اور بُری طرح استعمال ہورہے ہیں۔ انسان کو استفادہ ضرور کرنا چا چاہیے مگر اپنے ہم نفسوں کو صرف استفادہ کی چیز نہیں سمجھنا چاہیے ۔ اپنے ہم نفسوں سے محبت کرنی چاہیے۔ اُن کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے۔
گئے وقتوں میں لوگ سادہ دل ہوتے تھے۔ وعدے اور ارادے کے پختہ تھے۔ ہمت والے تھے۔ بڑے بڑے کام کر گزرتے تھے مگر ہمارے ایک شاعر دوست ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے محبوب کو چاند کہنے کا ارادہ تو کرلیامگر بعد میں ہروقت یہی سوچتے رہتے تھے کہ انہوں نے ارادہ اپنی ہمت سے زیادہ کرلیا ہے۔ جبکہ اکثر شعرا کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کامضبوط ارادہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتاہے مگر ایسے انسان بھی ہیں جو ارادے باندھتے ہیں پھر توڑ دیتے ہیں۔ بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ بہت سارے لوگ وعدہ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں تو بہت سارے لوگ ارادہ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی زندگی وعدے کرتے کرتے گزر جاتی ہے تو کچھ لوگوں کی ارادے کرتے کرتے گزر جاتی ہے، کچھ ہی دیر بعد وہ ایک نیا ارادہ کرتے ہیں لیکن ماضی سے بالکل استفادہ نہیں کرتے۔
ایک خاتون رو رو کر ایک صاحب کی منتیں کرتی رہیں کہ وہ وعدہ نہ توڑیں مگر بہت سارے لوگ وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر ارادہ ایک بھی نہیں کرتے۔ایک شاعر نے اپنے محبوب کوکہاتھا کہ اگر وہ اُس کے وعدے پر اعتبار کرتا تو خوشی سے مر جاتا۔ شاعر کا زندہ رہنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ محبوب کے وعدوں اور ارادوں کی اصلیت سے واقف تھا۔
Don’t forget to Subscribe our Channel & Press Bell Icon.
لوگوں کے ساتھ کیے گئے وعدے بھی پورے کرنے چاہیے مگر ایک وعدہ ہم میں سے ہر ایک خالق کائنات کے ساتھ کرچکا ہے۔ یہ وعدہ مالکِ حقیقی اور ہماری روح کے درمیان اُس وقت ہوا جب روح کو بدن کا پیرہن عطا نہیں ہواتھا۔ اس عہد کو عہدِ الست کہاجاتا ہے۔ انسان نے خالق کائنات سے یہ وعدہ کیا کہ صرف اللہ ہی اُس کا رب ہے۔ وہی عبادت کے لائق ہے۔ اُسی کے احکامات پر ہمیشہ عمل درآمد کیاجائے گا۔ انسانوں کی ایک کثیر تعداد اپنے اس وعدے کو بھول چکی ہے۔ شیطان ازل سے اس تاک میں ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ وفا نہ کرنے دے۔ ابلیس تو بندے کو اپنے ہم نفسوں سے کیے ہوئے وعدے بھی پورے نہیں کرنے دیتا۔ ہمارے ہر اچھے ارادے میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ جو لوگ خود سے کیئے ہوئے وعدے بھی توڑ دیتے ہیں، وہ دوسروں سے کیے ہوئے وعدوں کا بھرم کیسے رکھ سکتے ہیں۔ مومن لوگوں سے وعدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات نظر میں رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے اُس کی نظر میں رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے وعدہ ہے کہ روز جزا اُن کے ہر نیک ارادے سے کیے گئے عمل کا بہترین اجردے گا۔ ہمارا دین ہمیں وعدے اور ارادے کی اہمیت سکھاتا ہے۔ ارادہ پختہ ہونا چاہیے اور وعدہ بھی پکا ہونا چاہیے۔ انسانی معاشرہ کا حسن مضبوط ارادہ اور پختہ وعدہ ہے۔ ارادہ نیت کا دوسرا نام ہے اور نیت شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اچھی نیت والوں سے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی اچھے وعدہ کر رکھے ہیں اور سچا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اوراللہ تعالیٰ کے پیغمبرﷺ سب سے زیادہ سچا وعدہ کرتے ہیں۔ خالق کائنات کی ذات جب کوئی ارادہ کر لیتی ہے تو وہ ارادہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
آج کے دورکے انسان کو دنیا کی ہر نعمت میسر ہے مگر وہ پھر بھی بے سکون ہے۔ لوگ طرح طرح کے ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ لوگ سکون حاصل کرنے کیلئے ہر فعل کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سارے نوجوان سکون کی تلاش میں منشیات کا شکار ہو کر اپنے گھر والوں کا رہا سہا سکون بھی تباہ کردیتے ہیں۔ الہامی کتاب واضح الفاظ میں یہ پیغام دیتی ہے کہ دلوں کا سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہے۔ ہر اچھا فعل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ہی ایک قسم ہے۔ اگر ہم حقیقی سکون کے متلاشی ہیں تو ہمیں فرقان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل سے ہی حقیقی سکون کا حصول ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پُرسکون اورایسی زندگی عطا فرمائیں کہ ہمارے بعد میں آنے والے ہماری زندگی سے استفادہ کرسکیں۔ آمین۔