قابل انتخاب کا اکٹھا ہو کے نئی پارٹی ” استحکام پاکستان پارٹی“ بنانا پاکستان کی جمہوری تاریخ کے غیر جمہوری تسلسل کی ایک اور کڑی ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن سے قابل انتخاب سیاسی جماعتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آئے۔ قابل انتخاب جاگیر دار، سرمایہ دار، سرداران اور پیر صاحبان کا ایسا گروہ ہے جو کہ مالی، سیاسی اور سماجی مفادات کے لیے سیاسی اڑان جار رکھتے ہیں۔ اسکے علاؤہ وہ ہمیشہ سے اشارے کے بھی منتظر رہے ہیں۔ مفاد کے تابع ہونے کی وجہ سے ” قابل انتخاب“ نظریاتی سیاسی جہدوجہد کا سیاسی میٹریل ہی نہیں ہیں۔
قابل انتخاب میں سرمایہ داروں کا طرز سیاست صرف”پیسہ“ ہے۔ وہ فلاحی کام کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ الیکشن میں کروڑوں روپے لگا کر غریبوں کے ووٹ خریدتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے مڈل کلاس سیاست دان سیاست سے باہر ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین، علیم خان وغیرہ اس طرز سیاست کے علمبردار ہیں۔
Don’t foget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.
جاگیر دار اور سردار صاحبان اپنے قبیلوں اور رعیت سے ووٹ سمیٹنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ تھانہ، کچہری اور پٹواری کے ذریعے نظام کو کنٹرول کرتے ہیں اور لوگوں کی سماجی مجبوریوں کا استحصال کرتے ہیں۔ پیر صاحبان بھی اپنی روحانیت کیوجہ سے مریدین پر روحانی قبضہ کیے ہوئے ہیں اور مریدین پر یہ فرض ہے کہ وہ روحانی روشنائی کا ازالہ ووٹ کی صورت میں ادا کریں۔
ارتقاء ہی تبدیلی کا اصل سرچشمہ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آئینی حکمرانی کا ارتقاء بدستور جاری ہے۔ تاہم پچھلے کچھ سالوں سے اس فطری ارتقاء میں تیزی آئی ہے۔ لہذا شہری حلقوں میں قابل انتخاب کافی کمزور ہوئے ہیں۔ نسلی اور ازبانی سیاست بھی کمزور ہوئی ہے۔ مذہبی سیاست حلقہ جاتی سیاست کی حد تک مزید کمزور ہو رہی ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتیں مضبوط تر ہو رہی ہیں۔ اس لیے قابل انتخاب کا ”استحکام پاکستان پارٹی“ کے اندر متحد ہونا سیاسی جماعتوں کے لیے بہت بڑا چیلنج نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم یہ بحث الگ سے ہے کہ وہ کیوں اکٹھے ہوئے ہیں اور کیا مقتدرہ حلقوں کی حمایت سے وہ انتخابی کامیابی حاصل کر سکیں گے؟
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
جہانگیر ترین اور استحکام پاکستان پارٹی کا سب سے بڑا چیلنج یہ باور کروانا ہے کہ کیا وہ خود اکٹھے ہوئے ہیں یا انکو اکٹھا کیا گیا ہے؟ استحکام پاکستان پارٹی کو پنجاب کی بلوچستان عوامی پارٹی بھی کہا جا سکتا ہے۔ مزید یہ سوال بھی اہم ہے کہ پارٹی کا منشور کیا ہے ؟ پارٹی کا نظریہ کیا ہے؟ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ہوا ہے۔ اب وہ کس قانونی حیثیت سے سیاسی جماعت کو منظم کر رہے ہیں۔
استحکام پاکستان پارٹی بنیادی طور پر ایلیٹ کلب ہے جس میں سرمایہ دار، پراپرٹی ٹائیکونز، جاگیردار، پیر صاحبان اور موقع پرست سیاست دان شامل ہیں۔ ظاہری طور پر ان کا مڈل کلاس اور غریب طبقے سے سوائے استحصال کے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے مڈل کلاس کے بڑھتے ہوئے سیاسی شعور میں یہ ایلیٹ گروپ حلقہ جاتی سیاست تک ہی محدود رہیگا۔ آخر میں پاکستان میں قابل انتخاب کتنے مضبوط ہیں، اس گروہی جماعت کے ذریعے اسکا اظہار بھی ہو جائیگا ۔ نوجوان اور مڈل کلاس ووٹرز کبھی بھی اس طرح کے ایلیٹ گروہ سے متاثر نہیں ہو گا۔ لوگوں میں یہ جمہوری شعور ضرور مضبوط ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں “قابل انتخاب“ کی بجائے مضبوط ہونی چاہییں۔