تحریر: نعمان جمیل بٹ
پاکستان میں جعلی پیر کا لفظ ایسے لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو غیبی طاقتوں یا کرشمہ سازی کے دعوی دار ہوتے ہیں، جس کا تعلق وہ کسی طرح دین اسلام سے جوڑتے ہیں۔ توہم پرست اور جاہل لوگوں کی کثیر تعداد ان کو اسلام کا ولی سمجھتے ہوئے ان کی مرید ہو جاتی ہے۔ جعلی پیر کے کچھ غنڈے اور کارندے کرشمہ سازی اور شعبدہ بازی میں مدد دے کر لوگوں کو مرغوب کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا تعلق پرانے صوفیوں سے جوڑتے ہیں اور عوام ان کو پہنچا ہوا سمجھتی اور کہتی ہے۔ بعض پیر جنات کو اپنے قبضہ میں بتاتے ہیں اور سائلوں کا ان کی مدد سے کوئی بھی کام کروا لینے کا دعوی کرتے ہیں۔ جعلی پیر مختلف ہتھکنڈوں سے معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے کیا کیا طریقے استعمال کرتے ہیں ۔
پاکستانی معاشرے میں لوگ عقل کا استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی عامل اور پیر لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں
ہمارے ملک کا نوجوان سرمایہ جو اس وقت ملکی آبادی کا تقریباً چالیس فیصد بتایا جاتا ہے ،اگر ان کی اکثریت ’’خیالی خزانے‘‘ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کچھ چوراہوں اور پارکوں میں ہیرو بنتے دکھائی دیتے ہیں ، اور کچھ ہفتے اور اتوار کی صبح شہر کی سڑکوں پر موٹر سائکلوں پر اپنے جوہر دکھاتے پائے جاتے ہیں ۔باقی جو نوجوان بچ جاتے ہیںوہ مایوسی کا شکار ہو کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی معاشرہ اپنے ملک کی آبادی کے چالیس فیصد قیمتی سرمائے سے اس طرح لاتعلق ہو سکتا ہے جیسے ہم ہو چکے ہیں؟ اگر ان نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیوں ، کھیلوں اور مختلف ہنر کے ذرائع پیدا کر دیے جائیں تو ہو سکتا ہے یہ نوجوان حقیقت میں ایسا خزانہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس ملک کو مالا مال کر دے، اور اس مثبت تبدیلی کی ابتدا صرف حکومت یا وہ سرمایہ دارانہ طبقہ کرسکتا ہے جن کے پاس دولت کی فروانی ہے۔ اگر ان لوگوں کے سرمائے کی مٹھی بھر ’’سخاوت‘‘ سے ملک کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے ۔ اور ہمارا نوجوان طبقہ ترقی کی نئی راہوں پر کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔
جہاں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی اولادوں کو جعلی عاملوں کی ہوس کی تسکین کے لئے پیش کر دیا جاتا ہے اور بعد میں ہم شکایت کرتے پھرتے ہیں کہ فلاں جعلی عامل یا پیر نے ہماری بچی یا بچے کے ساتھ یہ سلوک کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بنیادی طور پر قصور جعلی پیروں یا عاملوں کا نہیں بلکہ ہماری اپنی کمزوریوں،بے وقوفیوں اور لالچ کا ہے جس سے یہ فراڈ افراد بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں ۔
پاکستان میں جعلی پیروں اور عاملوں کے کہنے پر توہم پرست اور کمزور عقائد رکھنے والے افراد کی جانب سے انسانی جانیں لینے خصوصا کم سن بچوں کے قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور عزت لٹنے کے واقعات سے اخبارات کے صفحے کالے نظر آتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان واقعات میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جعلی پیروں کے ہتھے چڑھنے والوں میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو اپنے مالی حالات اور تنگدستی سے چھٹکارا اور راتوں رات ترقی کے لئے شارٹ کٹ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں کے شکار افراد بھی آسانی سے جعلی پیروں اور عاملوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ عوام کی جعلی پیروں یا عاملوں کے ہاتھوں لٹنے کے ایسے واقعات کی وجہ کچھ بھی ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ کو یقینی بنائے۔ کیونکہ ریاست کا کردار بہت اہم ہے ریاست اور معاشرے کی فطرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور جن معاشروں کے اندر سماجی انصاف ہوتا ہے وہاں اس طرح کے جرائم بھی کم نظر آتے ہیں۔ لہذا حکومتی سطح پر بھی ان جعلی عاملوں اور پیروں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے بچاؤکے حوالے سے موثر قانون سازی اور نفاذ کی ضرورت ہے ۔ بلکہ اس حوالے سے مذہبی علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
دوسری جانب میڈیا بھی عوام کو گمراہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کس کس طرح کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں۔ بلکہ کئی چینلز پر تو کئی ایسے پروگرامز بھی نشر کئے جارہے ہیں جو جعلی عاملوں کے کام کو تقویت دیتے ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرامز اور اشتہارات پر پابندی عائداور جعلی پیروں اور عاملوں کے فروغ دینے والے چینلز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔
جن معاشروں میں غور فکر پر پابندیاں لگا دی گئی ہوں یا جہاں انسان کے زوق کی تسکین کے جائز راستے بند ہو چکے ہوں، جہالت عام ہو چکی ہو تو اسے معاشروں میں توہم پرستی کو اپنا راستہ بناتے دیر نہیں لگتی ۔ معاشرے کی ذہنی حالت کو تبدیل کئے بنا جعل سازوں سے بچنا مشکل ہے ۔اور اس سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے ہمیں عملی طور پر خود آگے بڑھ کر جعلی پیروں اور عاملوں کی حوصلہ شکنی کرنے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت ہے کہیں کل کو ئی ہمارا اپنا ان دھوکے بازوں کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔