Premium Content

کفایت شعاری کیلئے حکومتی اقدامات

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

حکومت پاکستان نے ملک کو درپیش معاشی مسائل اورمعاشی زبوں حالی سے نمٹنے کے لیے ”انقلابی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسکا اعلان وزیراعظم پاکستان نے باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعہ کیا۔ کابینہ کے سائز پر پاکستان کے لوگوں کو اعتراض تھا ،وزیر اعظم نے فرمایا کہ کابینہ کے ارکان رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہوں اور مراعات سے دستبردار ہوگئے ہیں۔اگر ایسا ہے تو ان ارکان کا گزر اوقات کا کیا بندوبست ہوگا کیونکہ سرکاری عہدہ رکھنے والا کوئی شخص کوئی دیگر کاروبار نہیں کرسکتا ہے۔
وزیراعظم صاحب کا یہ بھی فرمانا تھاکہ سرکاری طور پر لگژری گاڑیوں کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا ہے اور یہ گاڑیاں نیلام کردی جائیں گی۔1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کے وزیر اعظم جناب محمد خان جونیجو نے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا تھا جسکے مطابق وزراء،اور سرکاری افسران سے لگژری گاڑیاں لیکر نئی چھوٹی گاڑیاں خرید کرکے دی گئی تھیں مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد پھر سے نئی لگژری گاڑیاں خریدی گئیں۔ 2018میں جناب عمران خان صاحب نے بھی 100 سے زائد لگژری گاڑیاں اوربھینسیں فروخت کرکے حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی نوید سنائی تھی۔
وزیر اعظم صاحب نے مزید فرمایا کہ کابینہ کے اجلاس/ میٹنگ میں صرف چائے پیش کی جائے گی حالانکہ قائد اعظم کی خواہش تھی کہ وزراء چائے گھر سے پی کرآیا کریں۔
وزیر اعظم صاحب کی نیت پر شبہ کرنا مناسب نہیں ہے لیکن ان اقدامات سے پاکستان کے تجارتی خسارہ میں کمی ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماہر معاشیات کے مطابق پاکستان کے درآمدی بل میں کمی یا زیادتی کا انحصار پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر منحصر ہے۔جب تک ملک میں تیل کی کھپت میں کمی نہیں ہوتی درآمدی بل اور تجارتی خسارہ میں کمی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔2016 سے پہلے تک پیٹرول پمپ پر تین طرح کا پیٹرول ملتا تھا یعنی ریگولر(80/82 رون،سپر (92,90 رون اور ہائی اوکٹین 98,95 رون) پاکستان میں اکثر موٹرسائیکلوں اور 800 سی سی تک کی اور پرانی کاروں میں ریگولر پٹرول استعمال کیا جاتا تھا جوکہ سپر اور ہائی اوکٹین سے کافی سستا ہوتا تھا۔
دو ہزار سولہ سے پاکستان میں ریگولر پٹرول کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا کہ اسکے استعمال سے پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا تھا اور ریگولر پیٹرول کے استعمال کو ترک کرکے پاکستان برطانیہ اور یورپ کے ہم پلہ آجائے گا۔ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے برطانیہ اور یورپ کے زمینی حقائق کو مدنظر نہ رکھا گیا تھا کہ یورپ اور برطانیہ میں موٹرسائیکلوں کا استعمال تقریباً صفر ہے۔ جبکہ کاروں کی حالت بھی بہترین ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں تیس،چالیس سال پرانی کاریں سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا تھا اور”اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لیا گیا تھا نہ ہی ماہرین سے رائے لی گئی تھی۔ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوا ھے۔ 2016 کے بعد ھی”سموگ میں اضافہ ہوا،اگر وقت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ 2016 میں کیا گیا فیصلہ غلط تھا تو “یوٹرن لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یاد رہے کہ پاکستان میں موجود ریفائنریز ریگولر پیٹرول پیدا کرتی ہیں اور ریگولر کو سپر میں تبدیل کرنے کیلئے مہنگا کیمیکل مکس کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ریگولر 80/82 رون پیٹرول کا استعمال متعارف کرانے سے موٹر سائیکل اور پرانی کار استعمال کرنے والوں کے لیے ایک بہتر اور سستے ایندھن کا آپشن ہوگا جس سے اُن پر مالی بوجھ کم ہوگا اوریقیناً ماحول، انسانی صحت اور معیشت کے لئے اہم فوائد حاصل ہونگے اس طر ح پاکستان کو ایک پائیدار اور روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھانے کا موقع ملے گا۔
وزیر اعظم صاحب نے سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے احکامات بھی فرمائے ہیں یقیناً یہ ایک احسن قدم ہے اگر اس میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرلیا جائے تو یقیناً بجلی کی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوگی پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور آبپاشی کیلئے ضروری پانی ٹیوب ویل سے حاصل کیا جاتا ہے اس وقت تقریباً ایک ہزار روپیہ فی ایکڑ ماہانہ کے حساب سے پانی کے حصول کیلئے بجلی استعمال ہوتی ہے اگر کسانوں کے اوسط بجلی بل کو بنیاد بناکر بلاسود قرضے فراہم کئے جائیں ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر منتقل کر دیا جائے تو یقیناً اس سے تیل کے برآمدگی بل میں کمی آئے گی اور قرضوں کی واپسی بھی ممکن ہوسکے گی۔
کفایت شعاری کے لیے اٹھائے گے اقدامات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں مگر اخراجات کو کم کرنے کی بجائے آمدن بڑھانے کی ضرورت زیادہ اہم ہے اور آمدن بڑھنے سے ہی حقیقی خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos