Premium Content

“ خوشحالی کا بچہ اغوا ہو رہا ہے”

Print Friendly, PDF & Email

nawazkhalid123@gmail.com مصنف:          نواز خالد عاربی

ایک بلند اور کٹھن پہاڑی کی چوٹی پر اُسی پہاڑی کی طرح سخت جان لوگ آباد تھے۔ اُن کے علاوہ کسی اور کا اُس پہاڑی پر چڑھ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ جوکوئی بھی ایسی کوشش کرتا، تھک ہار کر بیٹھا رہتا۔ چوٹی تک عام آدمی کی پہنچ نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ عموماً میدانی علاقہ میں آکر وارداتیں کرتے اور پہاڑی پر چڑھ جاتے۔ ایک بار انہوں نے پہاڑی کے ساتھ ڈھلوانی سطح پر آباد قبیلے کا بچہ اُٹھا لیا اور پہاڑی پر چڑھ گئے۔بچے کے قبیلہ والوں نے مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ جیسے بھی ہو ہم نے بچہ واپس لینا ہے۔انہوں نے پہاڑی پر چڑھنے کے لیے ضروری سازوسامان اکٹھا کیا اور چڑھائی کی تگ و دو میں لگ گئے۔اس کوشش میں اُن کے کئی دن صرف ہو گئے لیکن وہ پہاڑی پر چڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔آخر تھک کر ہار گئے۔ اُنہوں نے بچے کی ماں سے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر بھول جانے کی نصیحت کی۔اگلی صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ بچے کی ماں بچہ کمر سے باندھے پہاڑی پر سے اُتر رہی ہے۔ وہ اسے دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گئے اور کہنے لگے کہ تو اتنی کٹھن پہاڑی پر اکیلے چڑھ کر بچہ کیسے لے آئی ہے؟ خاتون نے تاریخی جواب دیا،”یہ بچہ میرا ہے۔میں ہی اسے لا سکتی تھی“۔

آج وطنِ عزیز کی معاشی حالت اُس معصوم سوڈانی بچی کی سی ہے جس کا تن بے لباس، گال پچکے ہوئے، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں،  سر سے لے کر پاؤں تک چھوٹی سے لے کر بڑی ہر ایک ہڈی اپنے مقامِ موجود کا پتہ دیتی ہوئی، نحیف و نژار، کہنی کے بل، دو لقموں کے ملنے کی آس میں عالمی خوراک ایجنسی کی جانب بڑھ رہی تھی۔اور گرگس اُس کے اوپر مُنڈلا رہے تھے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/ek-plate-biryani-ek-nan-aur-imf/

آئے روز اخبارات، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ہمار ی سبک رفتاری سے گرتی ہوئی معاشی حالت کی بابت تعلیم یافتہ و صاحبِ شعور طبقہ اپنے تجزیے اور تاثرات پیش کرتا رہتا ہے۔جو صاحبانِ اقتدار پر ہمیشہ گراں گزرتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرہ میں ان کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو کڑوی معاشی حقیقتوں سے ہمیشہ دور رکھا جائے۔ جس کیلئے وہ ہر قسم کے میڈیا کو زورِ زر سے قابو میں رکھ کراپنے مخالفیں کی منظم تزلیل کے پئے در پئے منصوبے منظرِ عام پر لاتے رہتے ہیں۔ اس سے مقتدر جماعت سے جزباتی و جنونی سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگوں کو نہ صرف قلبی تسکین میسّر آتی ہے بلکہ وہ دیگر عوام کو ان کے اصل مسائل سے دور رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ آج وطنِ عزیز کو ایسی ہی ہیجانی صورتِ حال درپیش ہے۔

 پچھلے چند ہفتوں میں ماہرین کی طرف سے مختلف ذرائع ابلاغ پر لکھے اور کہے گئے معاشی نوحوں پر سرکاری مالی اداروں نے قوم کو پُرسہ دیتے ہوئے انہیں یکسر غلط قرار دے دیا ہے۔ کسی گاؤں کے جولاہے آپس میں جھگڑپڑے۔ بات بڑھی تو ڈانگ سوٹے پر آ گئی۔ کمزور پارٹی کا بندہ زخمی ہو گیا۔ اطلاع کرنے پر پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ مضروب پارٹی کا موقّف تھا کہ ضارب نے ان کے بندے کے سر پر ”ڈانگ“ مار کر زخمی کیا ہے۔ضارب کہنے لگا، ”یہ ”چِٹّاکُڑڑ“ مار رہے ہیں، میں نے تو”کاوِڑ“ میں ”ویلن“مارا تھا، ڈانگ نہیں“۔ سرکار کی توجہ بھی ”زخموں“کو تسلیم کرنے کی بجائے ”ڈانگ“ اور ”ویلن“ کی تفریق پر مرکوز ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ ان معاشی تجزیوں کو غلط مان لیتا اگر ”معاشی ارسطو“ پچھلے دو سالوں کی ایک تقابلی و تجزیاتی تصویر پیش کر دیتے، مثلاّّ بتا دیا جاتا کہ روز گار کے مواقع، مہنگائی کی شرح، ڈالر و سونے کے بھاؤ، برآمدات میں اضافہ، مقامی فی کس آمدنی میں بڑھوتری، غربت میں کمی، صنعتی پیداوار میں اضافہ، زرعی لوازمات کی آسان اور سستی فراہمی وغیرہ کس کس درجہ پر موجود ہیں۔

 آج ہم دنیا کو یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ”آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم آپ سے کچھ مانگنے آئے ہیں۔ ہم بالکل بھی مانگنے نہیں آئے۔ہم بالکل بھی بھکاری نہیں ہیں“۔ مگر پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے ان ممالک کو کہ ہمارے راہنماؤں کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پر انہیں ذرا برابر بھی اعتماد نہیں آرہا۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ زلزلہ آئے یا سیلاب، ڈوبنے والے ڈوب اور اُجڑنے والے اُجڑ جاتے ہیں۔ اُن کے نام پر امداد کی جھولی پھیلانے والوں کی جھولیاں بھر جاتی ہیں۔بین الاقوامی قرضوں میں سے یا سیلاب اور زلزلہ کی بھیک میں سے”کھانے والے“ جتنا کھا لیں، کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/imf-k-pass-na-gaye-tu-default-ki-teraf-chaly-jain/

آج ”صاحبانِ ثروت“ میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کو پاکستان سوائے مقصدِ حصولِ اقتدار کے دو آنکھ بھی بھاتا ہو۔ بیرونی دنیا کے یہ”محبانِ پاکستان“ صرف دو مقاصد کیلئے اس ”عاجز زمین کے بھاگ جگانے آتے ہیں، ایک کرسیِ اقتدار کی مجبوری نبھانے اور دوسرا دفن ہونے۔ہوس کی شاہراہ پر گامزن وطنِ عزیز کے ان سُپر شہریوں کے اثاثہ جات کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو اُن میں سے کئی ایک کے نام  پاکستان کے موجودہ زرِ مبادلہ سے زیادہ کے اثاثہ جات ہیں۔آخر ان کے پاس یہ اثاثہ جات کیوں نہ ہوں۔ کاروبار کے جُملہ رَموز انہوں نے ہی تو مرتب کیے ہیں۔ اگر پاکستان کی معیشت اُن کی عقلِ سلیم کا ساتھ نہیں دے سکی تو اس میں اُن کا کیا قصور ہے۔

آج پاکستان کے نحیف و نژار معاشی جسم پر مختلف قسم کے گرگس مُنڈلا رہے ہیں۔ جن میں اندرونی اور بیرونی دونوں نوع کے گرگس شامل ہیں۔ عام آدمی کا ”خوش حالی“ کا بچہ آج اغواء ہو رہا ہے۔ اغواء کرنے والے اُسے اُس پتھریلی،بُلند اور کٹھن پہاڑی پر لے کر جا رہے ہیں۔ جس پر چڑھنا عام آدمی کے لئے بہت دشوار ہے۔ اِس بچے کوکھوکھلے دعوے کرنے والے کبھی بھی واپس نہیں لا سکیں گے۔ یہ کڑے وقت میں اپنے عشرت کدوں کا  رخ کر لیں گے اور عوام کو بچے کے اغواء ہونے پر قسمت کا لکھا کہہ کر صبر کی تلقین کریں گے۔ اپنی خوشحالی کے بچے کو صرف عوام ہی واپس لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں شعور اور یقین کی طاقت سے آگے بڑھنا ہو گا۔وگرنہ پچھتاوے مقتدر ٹھہریں گے۔ کیونکہ گرگس سانسوں کو گن رہے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos