پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت نظریاتی تحریک چلانے کے لیے منظم ہی نہیں ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں قابل انتخاب کے ذریعے منظم ہوتی ہیں اور اقتدار میں آتی ہیں۔ یہ اقتدار میں آنے کا آسان ترین اور شارٹ کٹ راستہ ہے۔ پاکستان میں ذیادہ تر قابل انتخاب طاقت ور اداروں نے ہی بنائے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے مفادات کی وجہ سے مجبور ہو جاتے ہیں اور طاقتور اداروں کی منشاء کے مطابق سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی ایک ادارے کے طور پر نہیں بلکہ کچھ افراد کے سحر میں کام کرتی ہیں، اس لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں کہ قابل انتخاب کو پارٹی میں داخل کیا جائے ، کیونکہ وہ نہ صرف پیسہ لگائیں گے بلکہ نشستیں بھی جیت کر دیں گے۔ اس طرح قابل انتخاب اور سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم رہتا ہے ۔
سیاسی جماعتوں کو قابل انتخاب کی ضرورت اس لیے بھی رہتی ہے کہ وہ تنظیم سازی اور گراس روٹ تک منظم ہونے تک کی محنت کرنا ہی نہیں چاہتی ہیں اور اقتدار میں آنے کا شارٹ کٹ راستہ بعذریہ قابل انتخاب ہی اختیار کرتی ہیں۔ اب بھلا کیونکر سیاسی تنظیم پر اتنی محنت کی جائے ؟ پاکستان کی سیاست میں جب بھی انگڑائی آتی ہے، سب سے پہلے قابل انتخاب ہی داغ مفارقت دیتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے نظریاتی جدوجہد کرنا ممکن نہیں رہتا۔
تاہم، پاکستان میں ایسے بھی سیاسی ورکر ز ہیں جنہوں نے محنت کر کے کامیابی حاصل کی ہے، جس میں ڈیرہ غازی خان سے محترمہ زرتاج گل کی مثال سامنے ہے، وہ 2013 میں الیکشن ہار گئی تھیں، مگر عام ورکر کے طور پر محنت جاری رکھی اور 2018 میں ایک مضبوط جاگیردار کو ہرایا۔ ایسے ہی اگر سیاسی جماعتیں اپنے امیدواران اور پارٹی تنظیم کے ذریعے حلقوں میں مسلسل کام کریں تو انکو قابل انتخاب کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ابھی کشمیر حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ تحریکِ انصاف نے قابل انتخاب کو جتوایا مگر مشکل وقت میں سب ساتھ چھوڑ گئے ۔ اس لیے اگر کسی سیاسی جماعت نے نظریاتی جدوجہد کرنی ہے تو اسکو اپنی ہی نرسری سے امیدواران کو جتوانا ہو گا۔ اور ایسا ہونا ممکن بھی ہے اگر سیاسی جماعت حلقے میں منظم ہو اور مسلسل محنت جاری رکھے، اگر حلقہ میں ایک مہینہ پہلے ہی ٹکٹ دینی ہے تو پھر بھلا کیسے عام ورکر جیت سکتا ہے؟ ایک عام ورکر کو اگر حلقہ میں دو سال دے دیے جائیں تو وہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔
آخر میں قابل انتخاب پر انحصار کر کے کوئی بھی نظریاتی جدوجہد نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہی تحریک انصاف کا اب اصل چیلنج ہے کہ کیا قابل انتخاب اسکی نظریاتی جدوجہد کا ساتھ دیں گے یا منافقت کریں گے؟