غیر ملکی ساحلوں پر پھنسے رہنا شاید ہی کوئی قابل قبول تجربہ ہو, اور اگر ماحول مخالف ہے – جیسا کہ کرغزستان میں پاکستانیوں سمیت غیر ملکی طلباء کے لیے ہے – تو پھر یہ آزمائش انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔
کرغزستان کے دارالحکومت اور کانت میں پاکستانی طلباء کی تکلیف دہ کالیں، رپورٹس اور ویڈیوز تیزی سے جاری ہیں۔ خوفزدہ نوجوان الزام لگاتے ہیں کہ مشتعل ہجوم ان کے ہاسٹلز میں داخل ہو جاتے ہیں، ان پر حملہ کرتے ہیں، پیسے چراتے ہیں اور سامان کو تباہ کرتے ہیں۔
واٹس ایپ کالز پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے طلباء نے کہا کہ کھانے پینے کی اشیاء کی کمی ہے کیونکہ وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل پا رہے ۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے پریشان کن مناظر میں مسلح ہجوم کو دروازے توڑتے اور طلباء کو مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بش کیک میں پاکستانیوں سمیت غیر ملکی طلباء کو 13 مئی کو مصری شہریوں کے ساتھ تصادم کے بعد مقامی لوگوں نے زدوکوب کیا۔ پاکستان نے بین الاقوامی طلباء برادری کو نشانہ بنائے جانے والے تشدد کے درمیان طلباء کو گھر کے اندر رہنے کا مشورہ دیا ہے۔اگر حالات اتنے ہی ناگفتہ بہ ہیں جتنے کہ طلبہ کا دعویٰ ہے، تو حکومت کو ایکشن لینا چاہیے اور افراتفری میں پھنسے اپنے نوجوان شہریوں کو درپیش پریشانی کو دور کرنا چاہیے۔
میڈیا رپورٹس اور افواہوں کے ذریعے ملے جلے پیغامات خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں۔ لہٰذا، بش کیک میں پاکستانی مشن کو طلباء کی ضروریات، جیسے رہائش، ادویات، تحفظ اور یہاں تک کہ ان کے اہل خانہ کے پاس واپس جانے کے لیے ایک ہینڈ آن، ذاتی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان حالات میں طلباء اور کرغیز حکام کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں۔
اس کے علاوہ، قونصلر کے عملے کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ ہیلپ لائنز کے ذریعے مناسب مدد فراہم کریں، جو باقاعدگی سے اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں اور پریشان شہریوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹتی ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ کو حالات کی نگرانی کے لیے اہلکار مقرر کرنا چاہیے اور اپنے کرغیز ہم منصب سے رابطہ قائم کرنا چاہیے تاکہ پھنسے ہوئے نوجوانوں کو مکمل تحفظ حاصل ہو۔غیر معمولی حالات میں شہریوں کی تشویشناک کہانی ریاست سے دست بردار ہونے کی دوسری مثال نہیں بن سکتی۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.