Premium Content

Add

  !کیوں نہ خالی ذہن مرا جائے

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:  طارق محمود اعوان

مصنف سول سرونٹ ہیں۔

انسانی بشریت،انسانوں کو باقی مخلوقات کی فطرت سے الگ اور برتر مانتی ہے۔ اس کاخیال ہے کہ انسانی زندگی کی روحانی  قدر سب پر حاوی ہے۔اس  فلاسفی کے مطابق ایک ہی وقت میں، دیگرمخلوقات (بشمول حیوانات، پودے، معدنی و سائل وغیرہ)ایسے وسائل ہیں جن کا انسانی فائدے کے لیےاستحصال بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ کا ئنات کا مرکز بنی نوع انسان ہی ہے۔

تاہم ، مختلف انسانی نظریات کے لحاظ سے یہ ایک سخت مفہوم ہو سکتا ہے، لیکن انسانوں کی اپنی اخلاقی اقدار ہوتی ہیں۔ وہ باقی مخلوقات کے بارے میں سب سے زیادہ غیر اخلاقی واقع ہوئے  ہیں کیونکہ انسانی سوچ کا دارومدار صرف انسانی مفادات پر ہے۔لیکن پھر،   انسان  پیچیدگی، تبدیلی اور لا محدود صلاحیت کا خاصہ ہے۔ ہماری قابل ذکر علمی صلاحیت نے ہمیں پہیہ ایجاد کرنے، اہرام مصر بنانے اور چاندکو فتح کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ سائنس دان بعض اوقات انسانی دماغ کو   “ارتقاء کی اہم کامیابی  “کے طور گردانتے  ہیں۔

پھر خدا نے انسانوں کی عظمت کو مقرر کیا ہے۔ اندرونی اور بیرونی ساختی ہیت کے لحاظ سے  انسانی دماغ کا سب سے اہم وصف کیا ہے؟ انسانی دماغ کی سب سے قابل قدر وصف تخیل ہے۔  انسانوں میں فطری بیداری اور فطرت کی اشیاء کی بیداری ہوتی ہے پھریوں  وہ اندونی اوربیرونی بصیرت حاصل کرتے ہیں۔ انسانی دماغ کا  ڈیزائن غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔  جب تخیل ، تجربے اور سیکھنے کی مدد سے مدد ملتی ہےتو انسانی دماغ مکمل  فیکلٹی  کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا انسانی علم مکمل انسانی فیکلٹی ہے۔ یہ انسانی وجود کو شاندار بناتی ہے، اگریہ صلاحیت روحانی  نہیں بنا سکتی تویہ انسانی وجود کو ارفع ضرور  بناتی ہے۔

علمی، تخلیاتی اور تجرباتی استعدکاربنیادی اور حتمی انسانی علم کو قائم کرتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا انحصار انسانوں کے علم پر ہے۔ تمام سماجی اور سیاسی اکابرین علم و معلومات کو معاشرے کی اجتماعی دولت سمجھتے ہیں۔

انسان سماجی جانور ہے۔ یونانی فلسفی ارسطو نے انسان کی سماجی فطرت کے بارے میں سختی سے کہا تھا: انسان فطرتاَ َ ایک سماجی جانور ہے۔  ایک فرد جو قدرتی طور پر سماجی جانور ہے اور ایسا حادثاتی طور پر نہیں ہے تو وہ بغیر اجتماعی معاشرت کے پروان نہیں چڑھ سکتا ہے۔ معاشرہ ایک ایسا ادارہ ہے جو فرد پر مقدم ہے۔ اس لیے انسان مل جل کر رہتے ہیں۔ وہ اجتماعی زندگی کو ترجیح دیتے اور معاشرے کی متعین اقدار کے مطابق اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہماری اجتماعی زندگی دوسرے انسانوں سے استعدکار بانٹنے اور منتقل کرنے کا اظہار کرتی ہے۔

انسانی زندگی تمام فلسفوں کے مطابق اقدار کا مجموعہ ہے۔ سب سے زیادہ قابل قدر، قدر انسانیت ہے۔ یہ ہمدردی، یا فیاضانہ رویّے یا مزاج کی نمائندگی کرتی ہے۔ پھر، ہماری اجتماعی زندگی انسانی وجود کے نظریات کی ہے ۔ یہ ایک طرز زندگی ہے جو مہارتوں، صلاحیتوں اور بصیرت کے تبادلے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ مشترکہ رہنے کی جگہوں،پیداوار، اور خوراک کے ساتھ ساتھ جمع شدہ وسائل اور خدمات کی بھی شراکت داری کی اجازت دیتی ہے، جس کے نتیجے میں انسانیت کے مقصد کے لیے ہلکے ماحولیاتی اثرات بھی مرتب رہتے ہیں۔ لہٰذا، علم کا اشتراک، بصیرت افروزصلاحیتیں، اور دنیاوی مجبوریاں انسانیت کی پہچان ہیں۔ انسانوں کو اپنی تمام صلاحیتوں، مہارتوں اور علم کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا چاہیے۔

            سیکھنااور پھر علم سیکھنا الوہیت ہے۔ انسان فطری طور پر سیکھنے اور اس کے مطابق اس کا اشتراک کرنے کا سر چشمہ ہے۔ یہ بے مثال قد ر انسانوں کو دیگر تمام انواع پر ممتازکرتی ہے۔ ارسطو کے نزدیک بہترین فیکلٹی انسانی اظہار ہے۔ پھر اظہار کا بہترین طریقہ تحریر ہے۔ یہا ں تک کہ مقدس صحیفے بھی اس کی نمائندگی کرتے ہیں لہٰذا، یہ انسانی  جبلت کے قریب ہے۔ کہتے ہیں کہ دیوتا انسانوں کو لکھنا اور سکھانے کے ذمہ دار تھے۔ ان کی شمولیت کے بغیر، ہمارے نا مکمل انسانوں کے لیے ایسی قیمتی اور طاقتور مہارت پیدا کرنا نا ممکن تھا۔ یہ اور اسی طرح کی دیگرمہارتیں، وہ طریقہ تھا جس سے زیادہ تر قدیم معاشروں نے تحریراور لکھنے کے وجود کو تسلیم کیا تھا۔  تحریراور لکھنے کا عمل انسانی معاشرے کا مرکز رہا ہے۔

            اپنی شخصیت کو شاعرانہ انصاف فراہم کرنے کے لیے روزانہ لکھنا اور پھر لکھنا چاہیے۔  اظہارانسانی جبلت ہے ۔ انبیاء، مشائخ، رہبر اور تمام رہنماؤں نے انسانوں کے سامنے اپنے وجود کی قدر کو لکھا اور ظاہر کیا۔ روزانہ لکھنے کا ہنر اپنانا  چاہیے اور یوں خالی دماغ کے ساتھ مرنا چاہیے۔ خالی ذہن  مرنے کا خیال ایک ارتقائی تصور ہے۔ تاہم، مصنف ٹوڈ ہنری نے اسے اپنی کتاب”ڈائنگ ایمپٹی”میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مصنف بتاتا ہے کہ لکھنا ایک اہم  انسانی قدر ہے،اور ہر روز لکھنا چاہیے۔ ہر کسی کو روزانہ لکھنا  ہوگا اور خالی ذہن مرنا ہوگا۔ آپکے مرنے سے پہلے یہ بھی ایک مقدس امانت ہے کہ آپ تمام ہنر، علم اور فیکلٹی کو  معاشرے میں منتقل کر دیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ دورحاضرہ کی اہمیت کو قبول کریں اور سکون،خوف، واقفیت، اور اناء کو اپنے عزائم پر حاوی نہ کریں۔ بے عملی کی قیمت بہت زیادہ ہے۔  اپنے اندر کا بہترین علمی  کام لے کر اپنی قبر میں نہ جائیں۔ اپنے مرنے سے پہلے یہ یقین دہانی کر لیں کہ آپکا سارا علم  و ہنر دوسرے افراد تک پہنچ گیا ہے۔

یہ تصور جائز اور شفاف ہےاور  لکھنا اولین ترجیح ہے۔ بھرے دماغ کے ساتھ مرنا زندگی کا ضیاع ہے۔ یہ ایک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی تمام صلاحیتوں کو دوسروں تک پہنچائے۔ تمام انسان ہنر مندانہ صلاحیتوں کی نمائش کرتے ہیں اور ان کے تجربات تخلیاتی صلاحیتوں کو حکمت، واقفیت اور علم میں بدل دیتے ہیں۔ انسان حکمت، بصیرت اور ادراک کا ایک منفرد مجموعہ تیار کرتے ہیں۔ انفرادی تجربات خصوصی تفہیم کو تشکیل دیتے ہیں اوریوں آنے والی نسلوں کے لیے تفہیم کے ڈھانچے کی تعمیر کے لیے تحریر ہی  کو بہترین اظہارکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال، علم کو معاشرے تک پہنچانے کی ذاتی ذمہ داری اہم ہے اور مرنے سے پہلے تمام علم معاشرے کے سپرد کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے۔

علم کی منتقلی انسانیت کے لیے کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ یہ ایک انسانی قد ر ہے اور معاشرے میں  ایک اہم شراکت داری ہے۔ اس لیے ہر کوئی فخر کے ساتھ اس قدر  کا حصہ ہے۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک علم کی منتقلی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتی ہے۔ معاشروں کو پہلے سے معلوم تھا کہ علم اور تجربات کے زندہ رہنے کے لیے آنے والی نسلوں تک اس کو پہنچایا جانا چاہیے۔ اس علم کو منتقل کرنے سے معاشرے استوار ہو ئے ہیں۔ جدید دنیا کی ترقی پرانی نسلوں سے علم کی منتقلی کی وجہ سے ہے ۔ موجودہ نسلوں کو علم اور فیکلٹی کی منتقلی کے لیے پرانی نسلوں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ لہذا یہ ہماری نسلوں کا بھی اخلاقی فرض ہے کہ وہ آنے والی نسلوں تک علم کی ترسیل کو یقینی بنائے۔

آخری بات یہ ہے کہ کم از کم ہر ایک کو خالی ذہن ہی مرناچاہیے۔ بھرے دماغ کے ساتھ مرنے کا کوئی جواز نہیں۔تحریر انسانی معراج ہے اور معاشرے کے لیے بہترین شراکت داری ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے  کہ مرنے سے پہلے تمام علم کو منتقل کر دیا جائے ۔ اس لیے روزانہ تحریر کو کاغذ پر اتاریں اور انسانیت کے ساتھ شیئر کریں۔اس لیے مرنے کا بہترین طریقہ خالی ذہن مرنا ہے۔  جب انسان مال وزر دنیا میں چھوڑ جاتا ہے تو کیوں نا علمی دولت بھی دنیا میں چھوڑ دی جائے۔

Topic Related Article Read More:- https://republicpolicy.com/tariq-mahmood-awan-one-must-die-empty/

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1